چین میں ایغور مسلمانوں پر بدترین مظالم جاری ہیں: پومپیو

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ ویغور مسلمان اقلیت سے چین کی بدسلوکی کے باعث موجودہ عالمی تاریخ میں انسانی حقوق کا انتہائی سنگین بحران پیدا ہوا ہے۔

واشنگٹن میں جمعرات کے روز آزادی مذہب کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، انھوں نے کہا کہ ’’چین ہمارے عہد کے انسانی حقوق کے بحرانوں کی بدترین مثال ہے‘‘، اور یہ کہ ’’یہ صورت حال اس صدی کا ایک بدنما داغ ہے‘‘۔

امریکہ کے چوٹی کے سفارت کار نے چینی حکومت کے اہلکاروں پر الزام لگایا کہ وہ کانفرنس میں شرکت کرنے والے دوسرے ملکوں کو دھمکاتی رہی ہے؛ اور یہ کہ امریکہ ان ملکوں کو دھیان میں رکھے گا جو چین کے زور بار کے نتیجے میں کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔

ان کا نام ظاہر کیے بغیر، پومپیو نے ان ملکوں پر زور دیا کہ وہ چین کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ پیدا کریں۔

اس ہفتے کے اوائل میں پومپیو نے کہا کہ جمعرات تک جاری رہنے والے سہ روزہ اجلاس میں، 100 سے زائد ممالک شرکت کریں گے، لیکن امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے شریک ملکوں کی تعداد کی تصدیق نہیں کی۔

ترجمان نے کہا کہ ’’ہمیں پتا ہے کہ حکومتِ چین نے ملکوں سے خصوصی رابطہ کرتے ہوئے انھیں شرکت نہ کرنے پر زور ڈالا۔ لیکن، ہم یہ تعداد نہیں بتا سکتے، جنھوں نے چین کا اثر قبول کیا‘‘۔

چین کی حکومت نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے کہ وہ مذہبی آزادی کے حوالے سے حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان لو کونگ نے جمعرات کے روز بیجنگ میں منعقدہ ایک نیوز بریفنگ میں کہا کہ ’’خودساختہ مذہبی عقوبت کے الزامات کی صورت حال ایک غلط الزام ہے‘‘۔

لو نے یہ بھی کہا کہ چین مطالبہ کرتا ہے کہ امریکہ چین کی مذہبی پالیسیوں اور چین میں آزادی مذہب کی صورت حال سے متعلق اپنا زاویے نظر درست کرے اور دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت کے لیے مذہب کا استعمال بند کرے‘‘۔

اقوام متحدہ کے ماہرین اور سرگرم کارکنان دلیل دیتے ہیں کہ چین نے کم از کم 10 لاکھ ویغور نسل کے افراد کو حراستی مراکز میں جھونک رکھا ہے۔ اس ماہ کے اوائل میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں تقریباً دو درجن ملکوں نے چین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ملک کے مغربی سنکیانگ علاقے میں ویغور افراد پر مظالم ڈھانا بند کرے۔

سنکیانگ میں چین کی اختیار کردہ پالیسیوں پر امریکہ چین کے اہلکاروں کے خلاف تعزیرات عائد کرنے پر غور کر رہا ہے۔ لیکن، چین کی جانب سے جوابی کارروائی کی دھمکیوں کے پیش نظر ابھی انہیں لاگو نہیں کیا۔

عالمی طاقتوں کے مابین تجارتی لڑائی کے نتیجے میں امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں۔

نائب صدر مائیک پینس نے بھی اجلاس سے خطاب کیا، جس میں انھوں نے شرکا سے کہا کہ امریکہ کی جانب سے چین کے ساتھ جاری تجارتی مذاکرات کے باعث امریکہ مشرقی ایشیائی ملک میں مذہبی آزادی کے سوال پر اپنے عزم سے نہیں ہٹے گا۔

پینس نے امریکہ کے اتحادی سعودی عرب پر نکتہ چینی کرتے ہوئے، بادشاہت پر زور دیا کہ وہ قید بلاگر رائف بدوی کو رہا کرے، جنھیں مذہب کی توہین کے الزام پر 10 سال قید کی سزا دی گئی ہے۔ امریکہ کی نکتہ چینی کو ناقدین غیر معمولی قرار دیتے ہیں۔

پینس نے پاکستان، اریٹریا اور موریتانیہ میں قید مذہبی اختلاف رائے رکھنے والوں کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا، اور اس بات کا عہد کیا کہ امریکہ شمالی کوریا میں مذہبی آزادی پر زور دے گا، ایسے میں جب ملک کے جوہری ہتھیاروں کو تلف کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

اس سے قبل، وائٹ ہاؤس میں ایک خصوصی تقریب میں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 17 ملکوں سے تعلق رکھنے والے 27 افراد سے ملاقات کی جو مبینہ مذہبی عقوبتوں کا شکار رہے ہیں، جن میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے وکیل، شان تاثیر اور احمدیہ مسلمان، عبد الشکور شامل ہیں۔ پاکستان کے علاوہ، یہ 17 ممالک ہیں: افغانستان، ایران، عراق، ترکی، برما، نیوزی لینڈ، یمن، چین، کیوبا، اریٹریا، نائجیریا، ویتنام، سوڈان، شمالی کوریا، سری لنکا اور جرمنی۔