پنجاب میں سیاسی بحران برقرار، 'ہم حمزہ شہباز کو وزیرِ اعلٰی تسلیم نہیں کرتے'

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں نو منتخب وزیرِ اعلٰی حمزہ شہباز شریف کا تاحال حلف نہیں ہو سکا جب کہ دوسری جانب ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے لیے جمعرات کو بلایا جانے والا اجلاس کارروائی کے بغیر 16 مئی تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے گورنر پنجاب کو ڈیڈ لائن دی ہے کہ وہ نو منتخب وزیرِ اعلٰی سے 28 اپریل کو ہر صورت حلف لیں یا کوئی نمائندہ مقرر کریں، تاہم گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے تاحال اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

مسلم لیگ (ن) کا مؤقف ہے کہ اگر جمعرات کو 12 بجے تک حمزہ شہباز شریف سے وزارتِ اعلٰی کا حلف نہ لیا گیا تو پھر آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

اسمبلی اجلاس 16 مئی تک ملتوی کرنے کے بعد تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعلٰی پنجاب کا الیکشن آئین کے تحت نہیں ہوا کیوں کہ ڈپٹی اسپیکر نے مہمانوں کی گیلری میں بیٹھ کر وزیرِاعلیٰ کا الیکشن کرایا۔ لہذٰا ہم حمزہ شہباز کو وزیرِ اعلٰی نہیں مانتے۔

چوہدری پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ پولیس کی ایوان میں موجودگی سے پورے ایوان کا استحقاق مجروح ہوا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اسمبلی میں قانون سازی پولیس نے یا عدالتوں نے کرانی ہے تو وہ یہاں آجائیں۔

پرویز الہٰی کے بقول آئین کے مطابق عدلیہ ایوان کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ اِسی طرح ایوان بھی عدلیہ کے کاموں میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ انتخاب اور تحریکِ عدم اعتماد سمیت تمام چیزیں ایوان کی کارروائی کا حصہ ہے جس میں عدلیہ دخل اندازی نہیں کر سکتی۔

'عثمان بزدار ہی صوبے کے وزیرِ اعلٰی ہیں'

چوہدری پرویز الہٰی کا مزید کہنا تھا کہ آئین کے مطابق جب تک نیا وزیرِ اعلٰی حلف نہیں لے لیتا اس وقت تک پرانا وزیرِ اعلٰی اپنے عہدے پرفائز رہتا ہے۔ لہذٰا عثمان بزدار آج بھی پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ ہیں اور ان کے اختیارات بحال ہیں۔

خیال رہے کہ پنجاب میں سیاسی بحران کو اب لگ بھگ ایک ماہ ہو گیا ہے۔ عثمان بزدار نے گزشتہ ماہ 28 مارچ کو استعفیٰ دے دیا تھا۔ تاہم 16 اپریل کو پنجاب میں قائدِ ایوان کے انتخاب کے دوران ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بعد پنجاب کی سیاسی صورتِ حال کشیدہ ہو گئی تھی۔

دوسری جانب عثمان بزدار کے استعفے پر بھی قانونی سوال اُٹھ گئے تھے کہ اُنہوں نے اپنا استعفیٰ گورنر کے بجائے وزیرِ اعظم کو بھجوا دیا تھا۔

سولہ اپریل کو پولیس نے پنجاب اسمبلی میں دھاوا بول دیا تھا اور اس دوران پولیس اور اراکینِ اسمبلی کے درمیان دھمکم پیل اور مار کٹائی کا سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا تھا۔

جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ اعلٰی پنجاب سردار عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعلٰی کا حلف آئین اور قانون کے مطابق ہو گا۔

اپنے استعفٗے سے متعلق اُنہوں نے کہا کہ اُن کا استعفی منظور ہوا یا نہیں ؟ یہ معاملہ عدالت میں ہے اس پر بات نہیں کرسکتے۔ اپنی کابینہ سے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ نگران کابینہ اگر آئین اجازت دیتا ہے تو ضرور بنائیں گے۔


لاہور ہائی کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل

دوسری جانب تحریکِِ انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے اراکینِ اسمبلی نے لاہور ہائی کورٹ میں حمزہ شہباز کے حلف سے متعلق چیف جسٹس امیر بھٹی کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کر دی۔ جس میں حمزہ شہباز، وزیر اعظم اور صدر کو بذریعہ سیکریٹری اور گورنر کو بذریعہ پرنسپل سیکریٹری فریق بنایا گیا ہے۔

اپیل میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آئین اور قانون کے خلاف ہے۔ ہائی کورٹ کی جانب سے حلف کی ڈیڈ لائن مقرر کرنا صدر اور گورنر کے عہدے کی توہین ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے پاس گورنر اور صدر کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 248 صدر اور گورنر کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اپیل میں استدعا کی گئی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ سنگل بینچ کا گورنر پنجاب کو حلف سے متعلق دیا گیا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔