بلوچستان میں مخلوط حکومت کے قیام کے لیے رابطے

بلوچستان اسمبلی (فائل فوٹو)

صوبائی اسمبلی میں اس وقت بلوچستان عوامی پارٹی کی 14، متحدہ مجلسِ عمل کی 9، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی 6، پاکستان تحریکِ انصاف کی 4 اور عوامی نیشنل پارٹی کی 3 نشستیں ہیں۔

بلوچستان میں صوبائی حکومت کی تشکیل کے لیے کو ششیں تیز ہو گئی ہیں اور بلوچستان عوامی پارٹی، پاکستان تحریکِ انصاف ، متحدہ مجلسِ عمل اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے صوبے کی وزارتِ اعلیٰ کے حصول کے لیے دیگر جماعتوں اور آزاد امیدواروں سے رابطے شروع کردیے ہیں۔

بدھ کو بلوچستان اسمبلی کی 51 میں سے 50 نشستوں پر انتخاب ہوا تھا جس کے اب تک سامنے آنے والے غیر سرکاری نتائج کے مطابق صوبائی اسمبلی میں اس وقت بلوچستان عوامی پارٹی کی 14، متحدہ مجلسِ عمل کی 9، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی 6، پاکستان تحریکِ انصاف کی 4 اور عوامی نیشنل پارٹی کی 3 نشستیں ہیں۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کی 2، 2، مسلم لیگ (ن)، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی کی ایک، ایک نشست اور پانچ آزاد ارکان ہیں۔

پی بی 35 کے انتخابات اُمیدوار نوابزادہ میر سراج رئیسانی کے ایک خودکش حملے میں ہلاکت کے بعد ملتوی کردیے گئے تھے جب کہ دو نشستوں کے نتائج کا ابھی اعلان نہیں کیا گیا۔

بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) نے اپنے ارکانِ اسمبلی اور سینئر رہنماﺅں کا ایک اجلاس اتوار کو طلب کر لیا ہے جس میں وزیرِ اعلیٰ کے منصب کے لیے مختلف ناموں پر غور کیا جائے گا۔

'باپ' کے ذرائع کے مطابق پارٹی کی جانب سے وزارتِ اعلیٰ کے سب سے موزوں اُمیدوار سابق وفاقی وزیر اور پارٹی کے مرکزی صدر جام کمال ہیں۔

تاہم پارٹی کے تین دیگر رہنما - سابق وزرائے اعلیٰ جان محمد جمالی، سردار صالح محمد بھوتانی اور میر عبدالقدوس بزنجو بھی وزارتِ اعلیٰ کے اُمیدوار ہوسکتے ہیں۔

بلوچستان اسمبلی کا رکن منتخب ہونے والے متحدہ مجلس عمل کے تمام ارکان کا تعلق جمعیت علماءِ اسلام (فضل الرحمان گروپ) سے ہے۔

حکومت سازی پر غور کے لیے 'جے یو آئی' کے اجلاس بھی جاری ہیں جس میں پارٹی ذرائع کے مطابق صوبے کی روایات کے مطابق ایک ایسی مخلوط حکومت کے قیام پر غور کیا جارہا ہے جس میں وفاق میں حکومت تشکیل دینے والی جماعت (تحریکِ انصاف) کے ارکان کے ساتھ بی این پی، باپ، اے این پی، ایچ ڈی پی اور دیگر جماعتیں شامل ہوں۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے ایک رہنما نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ پارٹی کی مرکزی کابینہ اور نو منتخب ارکانِ اسمبلی کا اجلاس اتوار کو طلب کر لیا گیا ہے جس میں عوامی نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی، بی این پی (عوامی) کے ارکان کے ساتھ مل کر اپنی حکومت بنانے یا مخلوط حکومت میں شامل ہونے یا حزبِ اختلاف کی بینچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

دریں اثنا پاکستان تحریکِ انصاف کی مر کزی قیادت نے اپنی پارٹی کے صوبائی صدر سردار یار محمد رند کو اسلام اباد طلب کر لیا ہے جن سے صوبے میں دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دینے کے بارے میں مشورہ کیا جائے گا۔

سیاسی تجزیہ نگار جعفر خان ترین کے مطابق بلوچستان کی 47 سالہ تاریخ میں صوبے میں ہمیشہ مخلوط حکومتیں بنتی رہی ہیں اور حالیہ الیکشن کے بعد بھی کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کر پائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں مخلوط حکومت ہی تشکیل پائے گی اور اس بات کا امکان ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی، متحدہ مجلسِ عمل، پاکستان تحریکِ انصاف، اے این پی، بی این پی اور آزاد ارکان مل کر حکومت تشکیل دیں گے۔

گورنر بلوچستان نے ابھی اگر چہ اسمبلی کا اجلاس طلب نہیں کیا ہے تاہم ذرائع کے مطابق اسمبلی کا اجلاس اگست کے دوسرے ہفتے میں طلب کیا جاسکتا ہے۔