تھانے نہ جانے پر بحث: کراچی میں شہری کی فائرنگ سے پولیس اہلکار ہلاک

ہلاک ہونے والے پولیس اہلکار عبدالرحمن (فائل فوٹو)

"میرا لائسنس والا پسٹل ہے میں جس پر بھی تان لوں مجھے کیا پتا تم کون ہو؟ میں بھی تمہیں سمجھا رہا ہوں کہ نثار احمد کا بیٹا ہوں، خرم نثار میرے آئی ڈی کارڈ پر لکھا ہے۔ تم نے گن نکالی تو میں نے بھی نکال لی۔"

یہ تکرار پیر کی شب ملزم خرم ایک پولیس اہلکار سے کر رہا ہے جو اس کی گاڑی میں موجود ہے اور اسے تھانے لے جانا چاہتا ہے۔واقعے کی منظر عام پر آنے والی ویڈیو میں ملزم نہ صرف بہت پر اعتماد دکھائی دے رہا ہے بلکہ پولیس اہلکار سے مسلسل بحث کرتا نظر آ رہا ہے۔

اسی تکرار کے بعد خرم نے عبدالرحمن نامی پولیس اہلکار پر گولی چلادی اور کار لے کر موقع واردات سے فرار ہو گیا۔ یہ واقعہ پیر کی شب اس وقت پیش آیا جب سندھ پولیس کی شاہین فورس کے دو اہلکار کراچی کے علاقے ڈیفنس میں معمول کے گشت پر تھے۔

اس دوران انہیں ایک سیاہ شیشوں والی کار نظر آئی جسے انہوں نے شک گزرنے پر تلاشی کے لیے روکنے کی کوشش کی۔ شاہین فورس کا کام اسٹریٹ کرائمز کو روکنا ہے لیکن کسی گاڑی کو روک کر تلاشی لینا ان کی ڈیوٹی کا حصہ نہیں ہوتا۔

پولیس کے مطابق رات بارہ بج کر پینتالیس منٹ پر تھانہ کلفٹن کی حدود میں ڈی ایچ اے فیز فائیو، اسٹریٹ ای کے پاس مشکوک کار کو پولیس نے روکنے کی کوشش کی جس کے بعد ملز م اور پولیس اہلکار کے درمیان ہونے والی تلخ کلامی میں ملزم نے پولیس اہلکار پر گولی چلادی اور کار لے کر فرار ہو گیا۔

اس سے قبل پولیس کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ ملزم ایک لڑکی کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر زبردستی اغوا کر کے لے جا رہا تھا۔ اسی دوران پولیس اہل کاروں نے کار سوار کو روک کر اس سے پوچھ گچھ کرنے کی کوشش کی تو کار میں سوار لڑکی موقع دیکھ کر گاڑی سے اتر کر فرار ہوگئی۔

ایس ایس پی ساوتھ سید اسد رضا کے مطابق واقعے کے دوران موٹر سائیکل پر سوار دو پولیس اہلکاروں نے ملزم کو گاڑی سمیت پولیس اسٹیشن لے جانے کی کوشش کی جس پر ملزم نے ان سے بحث شروع کردی۔

تلخ کلامی کافی دیر چلتی رہی اس دوران ملزم کے ہاتھ میں پستول تھی اور وہ بار بار پولیس اہلکار سے تکرار کرتا رہا جس کے بعد اس نے پولیس اسٹیشن جانے سے انکار کیا اور اہلکار پر فائرنگ کردی جس پر پولیس اہلکار سر پر گولی لگنے کے سبب ہلاک ہو گیا۔ پولیس کے مطابق واقعے کی ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے اور ملزم کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

اس واقعے کی ایک ویڈیو کے علاوہ سامنے آنے والی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جب تکرار شدت پکڑ گئی تو پولیس اہلکار گاڑی سے نکل کر باہر کھڑا ہے جس کے بعد ملزم نے اس پر فائر کیا اور فورا گاڑی میں بیٹھ کر فرار ہو گیا۔

اس سے قبل جو ویڈیو سامنے آئی وہ دوسرے پولیس اہلکار کی جانب سے بنائی گئی ہے جو موٹر سائیکل پر موجود ہے۔ اس ویڈیو میں خرم اور پولیس اہلکار عبدالرحمن کے درمیان ہونے والی گفتگو واضح طور پر سنی جاسکتی ہے جب کہ دوسرا پولیس اہلکار کئی بار ملز م کو گاڑی میں بیٹھنے کا کہہ رہا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے جب ملزم فرار ہونے لگا تو پولیس اہلکار نے جو گولی لگنے سے زخمی ہوگیا تھا اپنے دفاع میں گاڑی پر جوابی فائرنگ کی تاہم اس دوران خرم موقع واردات سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔اور زخمی اہلکار نے دم توڑدیا ۔

ڈی آئی جی ساؤتھ عرفان بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملز م کی شناخت خرم نثار کے نام سے ہوئی ہے جو ڈی ایچ اے کا رہائشی اور ایک سابق بیوروکریٹ کا بیٹا بتایا جارہا ہے۔

اُن کے بقول خرم نثار سوئیڈن سے پانچ نومبر کو کراچی آیا تھا اور وہ سوئیڈن میں آن لائن اور کراچی میں رئیل اسٹیٹ کا بزنس کرتا ہے۔ اس نے سوئیڈن میں شادی کر رکھی ہے اور اس کے دو بچے ہیں۔ سوئیڈش خاتون سے شادی کی وجہ سے وہ سوئیڈن کا شہری بنا۔

ملز م کا سامنے آنے والے شناختی کارڈ میں جو پتا درج ہے وہ گلشن اقبال کا ہے جہاں پولیس ٹیم نے چھاپہ مارا تو معلوم ہوا کہ وہ گھر کسی اور کی ملکیت ہے۔


ڈی آئی جی ساؤتھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے ملزم کا سراغ لگا لیا ہے اور اس کے استعمال میں گاڑی اور واقعے میں استعمال ہونے والا اسلحہ بھی بر آمد کرلیا گیا ہے۔

اُن کے بقول گاڑی موقع واردات سے کچھ ہی دور گھر سے بر آمد کی گئی ہے جب کہ گاڑی میں سے واقعے میں استعمال ہونے والے اسلحے کے علاوہ بھی ہتھیار اور ڈرگز ملی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملزم نشے کا عادی ہے۔

عرفان بلوچ نے مزید بتایا کہ پولیس نے مفرور ملزم کی لوکیشن بھی ٹریس کی ہے جو کچھ گھنٹے قبل کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی کی آئی ہے تاہم ملزم کی گرفتاری کے لیے پولیس نے وفاتی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) کو خط لکھ کر ملز م کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کی سفارش کی ہے۔

تاہم اطلاعات کے مطابق پولیس اہلکار کو قتل کرنے والا ملزم خرم سویڈن فرار ہو گیا۔ اس نے روانگی کے وقت سویڈن کا پاسپورٹ استعمال کیا ۔ اور اس سفر کے لیے اس نے استنبول کا فضائی راستہ استعمال کیا۔

بعد ازاں بدھ کو اس حوالے سے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی۔

ڈی آئی جی ساؤتھ عرفان علی بلوچ کے مطابق پولیس اہلکار کے قتل کی تفتیش کے لیے ایس ایس پی ساؤتھ کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔ تفتیشی ٹیم کو خصوصی ٹاسک دیا گیا ہے کہ ان ملزمان کو بھی گرفتار کریں جنہوں نے ملزم کو فرار کرانے میں مدد کی ۔

اس کے علاوہ ایف آئی اے، انٹرپول اور سوئیڈن کے سفارت خانے سے بھی ملزم کی گرفتاری کے لیے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔