لال مسجد کیس: پولیس نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی

آ

رپورٹ میں کہا گیا کہ آپریشن کے دوران 103 افراد ہلاک ہوئے جن میں 89 شدت پسند، 11 سکیورٹی اہلکار جبکہ تین عام شہری تھے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ میں لال مسجد کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد پولیس نے اپنی رپورٹ جمع کرا دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جولائی 2007 میں لال مسجد کے خلاف ہونے والے فوجی آپریشن کے دوران مسجد سے ملقح مدرسے جامعہ حفصہ کی 467 طالبات کو وہاں سے نکال کر ان کے رشتہ داروں کے حوالے کیا گیا۔

پولیس رپورٹ کے مطابق آپریشن کے دوران 662 افراد کو گرفتار کیا گیا مگر بعد ازاں چھوڑ دیا گیا جبکہ 53 فوجداری مقدمات درج کیے گئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ مولانا عبدالعزیز، ان کی اہلیہ اور 39 دیگر ملزمان کے خلاف مزید کارروائی کے لیے چالان عدالتوں میں جمع کرائے گئے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ آپریشن کے دوران 103 افراد ہلاک ہوئے جن میں 89 شدت پسند، 11 سکیورٹی اہلکار جبکہ تین عام شہری تھے۔

پولیس کا کہنا تھا کہ اس کی تحقیقات کے مطابق عبدالعزیز کی اہلیہ ام حسان کا آپریشن کے دوران مسجد میں موجود طلبہ کی تعداد سے متعلق دعویٰ ثابت نہیں ہو سکا۔ ام حسان نے اس سے قبل دعویٰ کیا تھا کہ مسجد میں آپریشن کے وقت 3,500 کے لگ بھگ طلبا موجود تھے۔

یاد رہے کہ از خود نوٹس کے تحت سپریم کورٹ لال مسجد سے متعلق 2 اکتوبر 2007 کو سنائے جانے والے اپنے فیصلے پر عملدرآمد اور اسی معاملے پر عبدالعزیز کی درخواست کی سماعت کر رہی ہے۔

گزشتہ ماہ کیس کے سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے تین رکنی بینج نے اٹارنی جنرل کو کہا تھا کہ وہ عدالت کو بتائیں کہ حکومت نے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے کیا اقدامات کیے گئے۔

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے اپنے فیصلے میں وفاقی حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں قرآن کی بے حرمتی اور معصوم لوگوں کی جانوں کے ضیاع کے خلاف ایف آئی آر درج کرے، مرنے والوں کے ورثا کو دیت ادا کرے، جامعہ حفصہ کی ایک سال کے اندر تعمیر نو کرے اور اس دوران طلبا کی رہائش کے لیے متبادل انتظام کرکے عدالت کو 30 دن کے اندر آگاہ کرے۔

سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے علاوہ مولانا عبدالعزیز نے بھی فیصلے پر عملدرآمد کے لیے عدالت میں درخواست دے رکھی ہے۔