کراچی: ملالہ پر قاتلانہ حملے کا ملزم مارا گیا

فائل فوٹو

راؤ انوار کے بقول خورشید ملالہ یوسفزئی پر حملوں کے علاوہ فوج اور پولیس پر کئی دہشت گرد حملوں میں بھی مطلوب تھا۔

کراچی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ امن کی نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے میں ملوث انتہائی مطلوب ملزم ایک پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے۔

ایس ایس پی ضلع ملیر راؤ انوار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مطلوب ملزم خورشید کراچی کے علاقے سچل میں پیر کو ہونے والے ایک پولیس مقابلے کے دوران مارا گیا۔

راؤ انوار کے بقول خورشید ملالہ یوسفزئی پر حملوں کے علاوہ فوج اور پولیس پر کئی دہشت گرد حملوں میں بھی مطلوب تھا۔

پولیس کے مطابق خورشید کے علاوہ اس کے بھائی سمیت تین دیگر ملزمان بھی مقابلے میں مارے گئے۔

امن کی نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کو 9 اکتوبر 2012ء کو خیبر پختونخواہ کے علاقے سوات میں مسلح دہشت گردوں نے نشانہ بنایا تھا جس میں وہ اور ان کی دو ساتھی طالبات زخمی ہو گئی تھیں۔ کالعدم تحریک طالبان سوات نے ملالہ پر حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔

دوسری جانب کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں پولیس مقابلے کے دوران ایک پولیس اہلکار ہلاک اور دوسرا زخمی ہوگیا جبکہ جامعہ کراچی میں زیر تعلیم مبینہ دہشت گرد موقع سے فرار ہوگیا۔

پولیس کے مطابق ملزم سندھ اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف اور متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما خواجہ اظہار الحسن پر قاتلانہ حملے کا ماسٹر مائنڈ ہے۔

پولیس کے مطابق کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں کنیز فاطمہ سوسائٹی کے قریب دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر پیر کو علی الصبح چھاپا مارا گیا۔

اس دوران ملزمان کی جانب سے پولیس پر فائرنگ کی گئی جس میں پولیس اہلکار اعجاز پنہور ہلاک ہوگیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ مقابلے میں جو ملزم فرار ہونے میں کامیاب ہوا وہی خواجہ اظہار الحسن پر قاتلانہ حملے کا مرکزی کردار ہے جس کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن کیا گیا تھا۔

پولیس نے مکان میں رہائش پذیر ایک خاتون سمیت دو افراد کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔

ایس ایس پی راو محمد انوار کا کہنا ہے کہ گرفتار اور فرار ملزمان کا تعلق کالعدم جماعت 'انصار الشریعہ' سے ہے جو اس سے قبل کئی دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کرچکی ہے۔

پولیس کے مطابق فرار ملزم کا نام عبدالکریم سروش ہے جو جامعہ کراچی کے شعبہ اطلاقی طبیعات میں سیکنڈ ایئر کا طالبعلم ہے۔ پولیس کے مطابق گزشتہ رات چھاپے کے دوران ملزمان کے دیگر تین قریبی ساتھیوں کو بھی حراست میں لیا جا گیا ہے جن سے تفتیش جاری ہے۔

خواجہ اظہار الحسن پر 2 ستمبر کو بفرزون میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا جس میں وہ بال بال بچ گئے تھے۔ تاہم حملے میں ایک پولیس اہلکار اور راہگیر مارا گیا تھا۔

حملے کے دوران پولیس کی فائرنگ سے ایک ملزم موقع پر ہی مارا گیا تھا جس کی شناخت حسان کے نام سے ہوئی ہے۔

اس سے قبل بھی دہشت گردی کی سنگین وارداتوں میں سندھ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طلبہ ملوث پائے گئے ہیں جن میں سانحہ صفورا اور سندھ رینجرز پر حملے قابل ذکر ہیں۔