کیا نواز شریف دوبارہ احتجاجی سیاست کریں گے؟

نواز شریف اور شہباز شریف (فائل فوٹو)

نواز شریف کی جانب سے پارٹی اجلاس کی سربراہی کے بعد یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ شاید سابق وزیرِ اعظم دوبارہ احتجاجی سیاست شروع کرنا چاہتے ہیں؟

پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 10 اکتوبر تک قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے اجلاس نہ بلائے جانے پر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اگر اجلاس طلب نہ کیے گئے تو حزبِ اختلاف کے ارکان دونوں اسمبلیوں کے باہر اجلاس منعقد کریں گے۔

اس بات کا فیصلہ پیر کی شام پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس کی صدارت مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد اور سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے کی۔

لیگی رہنماؤں کے مطابق سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں نواز شریف نے اپنے چھوٹے بھائی اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کی گرفتاری، وزیرِ اعظم عمران خان کی اتوار کی پریس کانفرنس اور 14 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات سے متعلق پارٹی رہنماؤں سے صلاح مشورے کیے۔

اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رکنِ قومی اسمبلی رانا ثنااللہ نے بتایا کہ سی ای سی کے چند ارکان نے نواز شریف کو سڑکوں پر احتجاج کا مشورہ دیا ہے جب کہ بعض نے تجویز دی ہے کہ پہلے مرحلے میں اسمبلیوں کے اندر احتجاج کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کا اجلاس بدھ تک نہ بلایا گیا تو بدھ سے حزبِ اختلاف دونوں اسمبلیوں کے باہر احتجاجاً اجلاس منعقد کرے گی۔

رانا ثنا نے کہا کہ ان اجلاسوں میں ان کے بقول انتقامی کارروائی سمیت موجودہ حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔

نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز گزشتہ ماہ اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد سے عوامی اجتماعات اور تقاریب سے دور ہیں اور ان کے بیانات بھی سامنے نہیں آ رہے۔ (فائل فوٹو)

نواز شریف کی جانب سے پارٹی اجلاس کی سربراہی کے بعد یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ شاید سابق وزیرِ اعظم دوبارہ احتجاجی سیاست شروع کرنا چاہتے ہیں۔

اس سوال پر 'دنیا' ٹی وی سے منسلک صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ بظاہر ن لیگ اور دیگر سیاسی جماعتیں اس وقت حکومت کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کرنا چاہتیں اور حکومت کو وقت دینا چاہتی ہیں۔

لیکن ان کے بقول حکومت خود حزبِ اختلاف کو مجبور کر رہی ہے کہ اِس کے خلاف احتجاج کیا جائے۔

سلمان غنی کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف کی موجودہ حکومت عوامی تائید سے برسرِ اقتدار آئی ہے لیکن ابھی تک وہ عوام کو خاطر خواہ فوائد نہیں دے سکی ہے۔

ان کے بقول، "عمران خان کے مینڈیٹ تھے: معیشت کی بحالی، کرپشن کے خلاف احتساب اور سیاسی استحکام۔ لیکن بدقسمتی سے معیشت روز بروز نیچے جا رہی ہے۔ احتساب اُتنا مؤثر نہیں جتنا ہونا چاہیے۔ بظاہر لگتا ہے احتساب ن لیگ کے خلاف ہے۔ انہی دونوں پہلوؤں کے سبب سیاسی استحکام نہیں۔"

'جیو' ٹی وی سے منسلک صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ اس وقت مسلم لیگ (ن) کے لیے موسم اچھا نہیں اور نواز شریف کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں۔

ان کے بقول نواز شریف پر دباؤ ہو گا کہ وہ جیل جانے سے پہلے والا بیانیہ اپنائیں۔ ان کی خاموشی پر عام آدمی کے ذہن میں سوال آتا ہے کہ کہیں نواز شریف کی کوئی ڈیل تو نہیں ہو گئی۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ نواب شاہ اور کراچی میں آپریشن ہو چکا ہے اور اب لاہور میں صفائی ہو رہی ہے۔

ان کے خیال میں عمران خان کی حکومت کے چھ ماہ مکمل ہونے کے بعد حالات کسی تحریک چلانے کے لیے موزوں ہوں گے کیوں کہ ان کے بقول اس وقت تک معاشی ترقی نہیں ہوئی ہو گی، کوئی بڑا منصوبہ سامنے نہیں آیا ہو گا اور مہنگائی زیادہ بڑھ چکی ہو گی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے شہباز شریف کی گرفتاری پر قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرا رکھی ہیں۔

اطلاعات ہیں کہ پنجاب اسمبلی سیکریٹریٹ نے اپوزیشن کی درخواست پر اپنے جواب میں کہا ہے کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے پہلے سے ریکوزیشن جمع ہے جس کے مطابق 16 اکتوبر کو اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے گا۔