پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ہندو لڑکیوں کے مبینہ اغوا کے بعد جبری طور پر مذہب کی تبدیلی کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے سندھ اور پنجاب کے حکام کو تحقیقات کرنے اور لڑکیوں کو فوری بازیاب کرانے کی ہدایت کی ہے۔
سندھ کے شہر گھوٹکی میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی دو کم سن لڑکیوں کے والد کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو اغوا کے بعد زبردستی مسلمان کیا گیا اور پھر اُن کا نکاح مسلمانوں سے کرایا گیا۔
لڑکیوں کے والد اور بھائی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے جن میں اُن کا کہنا ہے کہ دونوں بہنوں کا مذہب زبردستی تبدیل کروایا گیا ہے جبکہ ایک دوسری ویڈیو میں دونوں لڑکیاں کہہ رہی ہیں کہ انھوں نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا ہے۔
لڑکیوں کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ انھیں گھوٹکی سے پنجاب کے شہر رحیم یار خان منتقل کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم نے سندہ اور پنجاب حکومت کو یہ بھی ہدائیت کی ہے کہ اس معاملے پر مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں اور سندہ حکومت ایسے واقعات کے تدارک کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے، پاکستان میں اقلیتیں ہمارے جھنڈے کا سفید رنگ ہیں اور ہمیں اپنے تمام رنگ عزیز ہیں اور اپنے پرچم کی حفاظت ہمارا فرض ہے
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) March 24, 2019
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ٹویٹ کی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ہندو لڑکیوں کو مبینہ طور پر گھوٹکی سے رحیم یار خان منتقل کرنے کی اطلاعات پر پنجاب اور سندھ کے حکام کو تحقیقات کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
فواد چوہدری نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ وزیراعظم نے اقلیتوں کے تحفظ کے لیے سندھ اور پنجاب کی حکومت کو مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔
بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے مبینہ طور پر ہندو لڑکیوں کی جبری مذہب کی تبدیلی پر کہا ہے کہ انھوں نے پاکستان میں موجود بھارتی ہائی کمشنر سے اس معاملے پر رپورٹ طلب کی ہے۔
جس کے جواب میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ مودی کا انڈیا نہیں، یہ عمران خان کا نیا پاکستان ہے جہاں ہمیں اپنی اقلیتیں بہت پیاری ہیں۔‘
پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ اور تحریکِ انصاف کے رکنِ قومی اسمبلی رمیش کمار واکوانی نے کہا کہ جبری مذہب کی تبدیلی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات بار بار لڑکیوں کے ساتھ ہی کیوں پیش آتے ہیں لڑکوں کو کیوں اغوا اور مذہب تبدیل نہیں کروایا جاتا ہے۔
Mam its Pakistin internal issue and rest assure its not Modi’s India where minorities are subjugated its Imran Khan’s Naya Pak where white color of our flag is equally dearer to us.I hope you ll act with same diligence when it comes to rights of Indian Minorities https://t.co/MQC1AnnmGR
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) March 24, 2019
انھوں نے کہا کہ جبری مذہب کی تبدیلی کو روکنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے اور سندھ حکومت نے اس حوالے سے ایک قانون منظور کیا تھا لیکن اسے دباؤ کے سبب اسے واپس لے لیا گیا۔
سندھ کے وزیر اطلاعات مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ گذشتہ دور حکومت میں ان کی جماعت نے زبردستی مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے قانون منظور کیا لیکن اس وقت کے گورنر نے اس پر اعتراز لگا کر واپس بجھوا دیا۔
سندھ کے وزیر اطلاعات مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ واقعے کا علم ہوتے ہی پولیس نے ایف آئی آر درج کر لی اور تحقیقات جاری ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس مقدمہ کے دو اہم پہلو ہیں ایک جبری مذہب کی تبدیلی اور دوسرا 18 سال سے کم عمر بچیوں کی شادی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں قانونی طور پر 18 سال سے کم عمر بچیوں کی شادی کی اجازت نہیں اسی وجہ سے ملزمان بچیوں کو پنجاب لے گئے۔
مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ سندھ پولیس اس وقت بھی رحیم یار خان موجود ہے اور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے وزیر اعلیٰٰٗ پنجاب سے بھی بات کی ہے اور کوشش ہے کہ بچیوں کو جلد ان کے والدین کے پاس واپس لایا جا سکے۔
یاد رہے کہ سندھ میں شادی کی کم سے کم عمر 18 سال ہے اور اس حوالے سے قانون سازی بھی کی گئی ہے۔
پاکستان میں ہندو برادری کی اکثریت سندھ میں مقیم ہے اور وہاں اس سے پہلے کئی مرتبہ ہندو لڑکیوں کے اغوا اور جبری مذہب تبدیلی کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔