شہباز شریف کا دورۂ چین: کیا پاکستان کو قرضوں میں رعایت مل پائے گی؟

وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دورۂ چین کے ایجنڈے میں سی پیک کے منصوبوں میں توسیع اور قرضوں کی تشکیل نو شامل ہے۔ فائل فوٹو

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف منگل یکم نومبر سے چین کے دو روزہ سرکاری دورے پر روانہ ہورہے ہیں۔وزارت عظمی کا منصب سنبھالنے کے بعد شہباز شریف کا یہ پہلا دورہ بیجنگ ہے جسے دوطرفہ تعلقات اور خطے کے حالات کے تناظر میں اہمیت دی جارہی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے نئی اتحادی حکومت دیرینہ دوست اور ہمسایہ ملک سے نئی سرمایہ کاری اور قرضوں کی ادائیگی میں رعایت کے لیے کوشش کررہی ہے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے منصوبوں میں توسیع اور اس کے تحت فراہم کیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے رعایت حاصل کرنا وزیرِ اعظم کے دورے کے ایجنڈے میں شامل ہے۔

چین میں پاکستان کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے والے سابق سفارت کار مسعود خالد نے کہا ہے کہ شہباز شریف کے دورۂ چین میں دوطرفہ تعلقات، تعاون کے علاوہ خطے کی صورتِ حال سمیت عالمی فورمز پر مشترکہ موقف اپنانے جیسے امور زیرِ بحث آئیں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے بعد شہباز شریف کا یہ پہلا دورۂ بیجنگ ہے جس میں افغانستان سے امریکہ کے انخلاء کے بعد کی صورتحال، یوکرین روس جنگ، امریکہ بھارت کے بڑھتے ہوئے مراسم، مسئلۂ کشمیر اور بھارت کے ساتھ سرحدی کشیدگی پر بھی تبادلۂ خیال ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے معاشی حالات میں بہتری لانے کے لیے چین کے نجی سیکٹر اور سرمایہ کار کمپنیوں کے ذریعے سرمایہ کاری کا خواہاں ہے۔

شہباز شریف کے دورۂ بیجنگ کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے چین سے متعلق کام کرنے والے اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر شکیل احمد رامے نے کہا کہ یہ دورہ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب پاکستان کی معاشی مشکلات شدت اختیار کرچکی ہیں اور رواں برس آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے صورتِ حال مزید سنگین ہوچکی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام آباد پہلے ہی قرضوں کی ادائیگی کے لیے نئے قرض حاصل کررہا تھا اور اب جبکہ سیلاب سے اربوں ڈالر کے نقصانات کا تخمینہ لگایا جاچکا ہے۔ اس لیے پاکستان کو بیرونی معاونت اور سرمایہ کاری کی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔

SEE ALSO: سی پیک منصوبوں کی سیکیورٹی: 'چین کا اعتماد پوری طرح بحال نہیں ہوا'

وہ کہتے ہیں کہ ان حالات میں یہ امکان ہے کہ سی پیک کو توسیع دینے کے معاہدے ہوں گے جس میں ٹیکنالوجی کوریڈور اور گرین روڈ کے منصوبے اہم ہیں۔

سیکیورٹی تحفظات

مسعود خالد کا کہنا ہے کہ پاکستان اور چین سی پیک کو آگے لے کرچلنا ہے اور اس بارے میں دونوں ممالک میں کوئی ابہام یا تحفطات نہیں پائے جاتے۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ دورِ حکومت میں سی پیک سست روی کا شکار رہا ہے اور موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ اس میں تیزی لانے کے ساتھ ساتھ دوسرے مرحلے کا بھی آغاز کردیا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ سی پیک اگرچہ حالیہ برسوں میں سست روی کا شکار رہا ہے لیکن اس کے باوجود اس منصوبے کے تحت 26 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آچکی ہے جس سے ملک میں روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔

چین کے پاکستان میں اپنے شہریوں کی سیکیورٹی کے حوالے سے تحفظات پر بات کرتے ہوئے مسعود خالد نے کہا کہ اسلام آباد نے چینی شہریوں اور منصوبوں کی حفاظت کے لیے ایک اسپیشل سیکیورٹی ڈویژن قائم کررکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت سیکیورٹی سے متعلق اپنی ذمے داری ادا کررہی ہے اور اس سلسلے میں دونوں ملکوں کا تعاون بھی جاری ہے۔تاہم پاکستان چین دوستی کے مخالف ممالک سی پیک کو سبوتاژکرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے دہشت گرداعناصر کو استعمال کرتے ہیں۔

کیا چین پاکستان کے قرضے ری شیڈیول کرے گا؟

پاکستان کی حکومت چینی قرضوں کے 6.3 بلین ڈالر کی واپسی میں کی مدت میں اضافے کی خواہشمند ہے۔ اس کے علاوہ، اسلام آباد اپنے کم ہوتے ہوئے غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کے لیے مزید مالی مدد حاصل کر نا چاہتا ہے۔

SEE ALSO: امریکہ میں شرح سود میں اضافہ: 'ترقی پذیر ممالک میں ڈالر کی قیمت اور مہنگائی بڑھے گی'


چین کے قرضوں کی واپسی پر نظرِ ثانی اور اس ضمن میں سہولت حاصل کرنے کے بارے میں حال ہی میں امریکہ نے بھی پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کے تناظر میں زور دیا تھا کہ وہ چین سے قرضوں کی چھوٹ اور ان کی ری اسٹرکچرنگ کرانے کی کوشش کرے۔

اس کے ردِعمل میں چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ امریکہ کو سیلاب سے متاثرہ پاکستان کے لیے کچھ 'حقیقی اور مفید' کام کرنا چاہیے اور انھوں نے امریکہ کے بیان کو 'پاکستان چین تعاون پر غیر ضروری تنقید ' قرار دے کر اس کی مذمت بھی کی تھی۔

اس سے قبل اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی پاکستان کے قرضوں کی ادائیگی میں رعایتیں دینے کی تجویز دی تھی۔

سابق سفارت کار مسعود خالد کے مطابق پاکستان سیلاب اور خراب معاشی صورتِ حال کے باعث قرضوں کی واپسی میں سہولت چاہے گا اور ان کے خیال میں وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دورے میں اس معاملے پر ضرور بات چیت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ چین کے قرض کی واپسی میں سہولت ایک دوطرفہ معاملہ ہے اور عالمی مالیاتی اداروں کو اس حوالے سے بیان دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

مسعود خالد کہتے ہیں کہ چاہے حالیہ سیلاب ہو یا کرونا وبا کے دوران ویکسین کی فراہمی، چین نے ہر مشکل میں پاکستان کی مدد کی ہے۔

شکیل رامے کا کہنا تھا کہ چین نے پچھلے سال پاکستان کا 4.5 ارب ڈالر کے قرض کی ادائیگی کی مدت میں توسیع دی تھی جو اب پوری ہونے والی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین نے نہ صرف پاکستان کو قرض واپسی میں سہولت دی بلکہ اپنی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ کیا اور اب بھی امید ہے کہ چین قرض واپسی میں سہولت دے گا۔

SEE ALSO: تیل کی پیداوار کم کرنے کی حمایت:’پاکستان سعودی عر ب کو پیغام دینا چاہتا ہے امریکہ کو نہیں‘


وہ کہتے ہیں کہ چین تو پاکستان کے ساتھ ہر سطح پر تعاون کررہا ہے لیکن پیرس کلب اور عالمی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف) کو بھی قدرتی آفت سے متاثر ہونے والے ملک کی مالی معاونت میں آگے آنا چاہیے۔

یاد رہے کہ شہباز شریف کے دورے سے قبل چین کی جانب سے سیلاب زدہ علاقوں میں تعمیرِ نو کے لیے امدادی رقم 30 کروڑ یوآن سے بڑھا کر 80 کروڑ یوآن کر دی ہے۔

پاکستان میں چین کے سفیر کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستاں میں تباہ کن سیلاب آنے کے بعد چین نے پاکستان کے لیے سب سے بڑی امداد فراہم کی ہے۔

دورے میں تاخیر کیوں ہوئی؟

شہباز شریف کو اپنے چین کے دورے کے لیے 6 ماہ کا انتظار کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد جلد بیجنگ کے دورے پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

پاکستان میں یہ ایک روایت رہی ہے کہ وزارتِ عظمی کے انتخاب کے فورا بعد نو منتخب وزیر اعظم ابتدائی ہفتوں میں ہی چین کا دورہ کرتے ہیں تاہم شہباز شریف کو چین کی جانب سے دورے کی دعوت موصول ہونے میں 6 ماہ سے زیادہ کا انتظار کرنا پڑا۔

مبصرین کے نزدیک اس تاخیر کے کئی اسباب ہیں جن میں داخلی حالات کے علاوہ ایک وجہ چین میں نافذ سخت کرونا وائرس پروٹوکول بھی ہے۔ تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ چین کو وزیرِاعظم شہباز شریف کی دعوت دیتے ہوئے پاکستان کی ملکی سیاسی صورتِ حال پر تشویش تھی۔

مسعود خالد نے کہا کہ شہباز شریف کے دورے میں تاخیر کا سبب پاکستان کے سیاسی حالات نہیں ہیں بلکہ اس کا تعلق چینی قیادت کی مصروفیات اور کرونا وائرس کے سخت قواعد ہیں۔

SEE ALSO: اوپیک کا پیداوار کم کرنے کا فیصلہ: تیل کی قیمتوں میں اضافہ دنیا پر کتنا اثرانداز ہوگا؟


انہوں نے کہا کہ اگر دیکھا جائے تو حالیہ عرصے میں کسی سربراہ ملک نے بیجنگ کا دورہ نہیں کیا ہے۔ چین کے لیے کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں نیشنل کانگریس بہت اہمیت کی حامل ہے جس میں شی جن پنگ کو تیسری بار صدر بنانے کا فیصلہ ایک غیر روایتی فیصلہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم کا دورہ کافی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ شی جن پنگ کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد وہ پہلے سربراہِ ملک ہیں جو بیجنگ میں ان سے ملاقات کریں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ شہباز شریف کا پہلا باضابطہ دورۂ بیجنگ ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان معمول کے رابطے ہیں اور ایس سی او اجلاس کے موقعے پر بھی دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہوئی تھی۔

شہباز شریف کی چین میں کیا مصروفیات ہوں گی؟

دفترِ خارجہ کی جانب سے وزیر اعظم کے دورۂ چین کی جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق شہباز شریف اپنے چینی ہم منصب لی کی چیانگ کی دعوت پر یہ دورہ کر رہے ہیں اور وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو سمیت اعلی سطح کا وفد بھی ان کے ہمراہ ہوگا۔

دفتر خارجہ کے مطابق وزیرِاعظم شہباز شریف کا دورہ دونوں ممالک کے درمیان قیادت کی سطح پر مسلسل رابطوں کی کڑی ہے اور دورے میں شہباز شریف چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کریں گے۔

اس سے قبل شہباز شریف شی جن پنگ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقعے پر ملاقات کر چکے ہیں جو کہ ستمبرکے وسط میں ازبکستان میں منعقد ہوا تھا۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق دورے کے دوران مفاہمت کی متعدد یاداشتوں اور معاہدات پر دستخط ہونے کا بھی امکان ہے اور دونوں ممالک کے درمیان وسیع تر دوطرفہ تعاون کے ایجنڈے پر پیش رفت متوقع ہے۔

SEE ALSO: ایک قریبی جنرل کی توسیع اور تین کو ترقی:'صدر شی فوج پر اپنی گرفت بڑھا رہے ہیں'


دفتر خارجہ کے مطابق دورے سے چین پاکستان اقتصادی راہداری کی رفتار مزید بڑھنے کی توقع ہے۔

اپنے دورہ بیجنگ سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نے منگل کو پاکستان میں چین کے سفیر نونگ رونگ سے ملاقات کی اور دورے پر تفصیلی گفتگو کی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے دورے سے قبل ’چائنا گلوبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ ان کے چین کے آئندہ دورے سے پاک چین تذویراتی تعلقات مزید گہرے ہوں گے اور دو طرفہ تجارتی اور کاروباری تعلقات میں اضافہ ہوگا۔