پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان سے امریکہ کی فوج کے انخلا کے بعد امریکی خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کو اپنی سر زمین پر اڈے استعمال کرنے کی اجازت ہر گز نہیں دے گا۔
امریکہ کے ٹی وی 'ایچ بی او' کے پروگرام 'ایکسیو' کو دیے گئے انٹرویو میں وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ پاکستان سی آئی اے اور امریکی اسپیشل فورسز کو افغانستان میں کارروائیاں کرنے کے لیے پاکستان میں اڈے فراہم کرے۔
Anchorperson: "Will you allow American Govt. to have CIA here in Pakistan to conduct cross-border missions in Afghanistan?"PM Imran Khan: "Absolutely not"#AbsolutelyNot pic.twitter.com/rQXE3nPWtQ
— PTI (@PTIofficial) June 19, 2021
گزشتہ دنوں مقامی ذرائع ابلاغ سمیت غیر ملکی میڈیا میں یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ اسلام آباد امریکہ کو اڈے فراہم کر سکتا ہے۔ البتہ پاکستان کے دفترِ خارجہ کی طرف سے ان خبروں کی تردید کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ عمران خان کے انٹرویو کا ایک کلپ جاری کیا گیا ہے باقی انٹرویو امریکی چینل پر بعد میں نشر کیا جائے گا۔
رپورٹس کے مطابق امریکہ اور نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد بائیڈن انتظامیہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں پر نظر رکھنے اور ان کے خلاف ممکنہ کارروائیاں کرنے کے لیے ہمسایہ ممالک میں اڈے قائم کرنا چاہتی ہے۔ تاکہ بوقت ضرورت افغانستان میں کارروائیاں کی جا سکیں۔
امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون کا رواں مہینے کے آغاز میں کہنا تھا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان فوجی اور سفارتی سطح پر اس بات کو یقینی بنانے پر بات چیت ہوئی ہے کہ دہشت گرد دوبارہ افغانستان کو امریکہ کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہ کر سکیں۔
Pakistan will "absolutely not" allow the U.S. CIA to use bases on its soil for cross-border counterterrorism missions after American forces withdraw from Afghanistan, Prime Minister Imran Khan tells "Axios on HBO" in a wide-ranging interview airing Sunday.https://t.co/5P2ES9wTFh
— Axios (@axios) June 18, 2021
تاہم اسلام آباد نے باضابطہ طور پر واشنگٹن کو بتا دیا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد وہاں دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں کرنے کے لیے واشنگٹن کو فوجی اڈے فراہم نہیں کرے گا۔
لیکن بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان ماضی کے برعکس امریکہ کو افغانستان میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے اپنا مشروط تعاون فراہم کر سکتا ہے۔
دوسری طرف طالبان کہہ چکے ہیں کہ افغانستان سے انخلا کے بعد وہ یہ نہیں چاہیں گے کہ خطے میں امریکہ کے سیکیورٹی اثاثے موجود رہیں۔
افغان صدر اشرف غنی کا گزشتہ ماہ جرمن اخبار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ افغان امن عمل میں پاکستان کا کردار انتہائی کلیدی ہے۔
کابل ایئرپورٹ کی سیکیورٹی ترکی کے حوالے کرنے کی تجویز
پاکستان کا جمعے کو کہنا تھا کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں بین الاقوامی ہوئی اڈے کی سیکیورٹی کے لیے اسلام آباد کے تعاون کی کوئی تجویز زیرِ غور نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے گزشتہ ہفتے نیٹو اجلاس کے موقع پر پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ترکی کو غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد افغانستان میں سیکیورٹی مشن کے لیے امریکہ کے ساتھ ساتھ پاکستان اور ہنگری کا تعاون بھی درکار ہو گا۔
زاہد حفیظ چوہدری نے جمعرات کو معمول کی نیوز بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ کابل ایئر پورٹ کی سیکیورٹی کے لیے پاکستان کا تعاون فراہم کرنے کی تجویز زیرِ غور نہیں ہے۔ البتہ افغان امن عمل کے لیے اسلام آباد مناسب کردار ادا کرنے لیے پُر عزم ہے۔
اس حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور ترکی کے قریبی تعلقات کے باوجود غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں اسلام آباد کا کسی بھی سیکیورٹی مشن کے لیے فوجی تعاون فراہم کرنے کا امکان کم ہی ہے۔
یاد رہے کہ افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کا عمل جاری ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ انخلا 11 ستمبر کی ڈیڈ لائن سے پہلے مکمل ہو سکتا ہے۔