پاکستان کی وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے عبوری مسودے کو مسترد کر دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق فریقین کو قابل عمل سمجھوتے تک پہنچنے کے لئے شرائط میں نرمی دکھانا ہو گی۔
آئی ایم ایف اور پاکستان کی حکومت کے درمیان بیل آؤٹ پیکج کے لئے 30 اپریل سے مذاکرات جاری ہیں جس میں تکنیکی سطح کے معاملات پر اتفاق رائے کے بعد پالیسی سطح کے امور پر اختلافات سامنے آئے ہیں جس کے باعث (اسٹاف لیول ایگریمینٹ) تاخیر کا شکار ہے۔
شیڈول کے مطابق مجوزہ معاہدے کے مسودے پر جمعے کے روز دستخط ہونا تھے تاہم دونوں جانب سے اتفاق رائے کے لئے مزید مذاکرات پر اتفاق کیا گیا ہے۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف مشن کے ساتھ مذاکرات میں زیادہ تر معاملات پر پیش رفت ہوئی ہے۔ تاہم بعض معاملات پر اتفاق ہونا باقی ہے جس بنا پر مذاکرات میں دو دن کی توسیع کی گئی ہے۔
پاکستانی وزارت خزانہ نے بھی مذاکرات کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف مشن سے مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے اور ہفتہ وار تعطیلات کے بعد مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گا۔
اطلاعات کے مطابق حکومت پاکستان سبسڈی کم کرنے کی آئی ایم ایف کی شرط ماننے کو تیار نہیں جبکہ وہ غریب طبقے کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے اقدامات چاہتی ہے۔
سرکاری عہدیدار کے مطابق آج (اتوار) کو آئی ایم ایف سے مذاکرات مکمل ہو جائیں گے جس کے بعد قرض کے مجوزہ مسودے کو منظوری کے لئے وفاقی کابینہ کو پیش کیا جائے گا۔
پاکستانی حکام کو امید ہے کہ آئی ایم ایف مشن کے اس دورہ اسلام آباد کے دوران بیل آؤٹ پیکج کے تمام پہلوؤں پر اتفاق کے بعد اسٹاف لیول ایگریمینٹ ہو جائے گا۔ عملے کی سطح پر ہونے والے سمجھوتے کے بعد آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ جون کے آخر یا جولائی کے آغاز پر پاکستان کے لئے بیل آؤٹ پیکج کی حتمی منطوری دے گا۔
ماہر معیشت اور سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان کافی عرصہ سے مذاکرات چل رہے ہیں۔ اس لئے وہ نہیں سمجھتے کہ دونوں فریقین کے درمیان کوئی بڑا پالیسی سطح کا اختلاف ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف ہیڈکوارٹر کی ہفتہ وار تعطیلات ختم ہونے پر سوموار کے روز بیل آؤٹ پیکج کا اعلان ہو سکتا ہے۔
سلمان شاہ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پاکستان کے معاشی حالات اور اصلاحات کے حوالے سے استعداد کار سے آگاہ ہے اور کوئی ایسا پروگرام نہیں ہونا چاہئے جس پر پاکستان عمل نہ کر سکے۔
خیال رہے کہ آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج پر اتفاق رائے نہ ہو سکنے کے باعث پاکستان کا رواں مالی سال کا مالی بجٹ بھی التوا کا شکار ہے۔ حکومت نے 26 مئی کو بجٹ قومی اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش کرنا تھا جسے اب 11 جون کو پیش کیا جائے گا۔
غیر ملکی قرضوں کی واپسی اور سرکاری ادائیگیوں کے بوجھ سے پریشان پاکستان کی حکومت رواں سال کے مالی بجٹ سے پہلے آئی ایم ایف سے قرضے کا حصول چاہتی ہے۔
اس سے قبل دونوں فریقین دو سال کے عرصے میں 700 ارب روپے کی ٹیکس میں دی گئی چھوٹ ختم کرنے پر راضی ہو گئے تھے اور حکومت مالی سال 2019/20 کے بجٹ میں مختلف مد میں دیے گئے ٹیکس استثنٰی کو ختم کرنے کا آغاز کرے گی جو تقریباً 350 ارب روپے کے برابر ہے۔
پاکستان اور آئی اہم کے درمیان آئندہ بجٹ میں صارفین کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرنے پر بھی اتفاق ہو گیا ہے جبکہ حکومت عوام کو سہولت فراہم کرنے والے مقبول فیصلوں میں کم سے کم مداخلت کرے گی۔
سرکاری حکام کے مطابق آئی ایم ایف نے آئندہ مالی سال میں بجٹ خسارہ 6 ارب ڈالر رکھنے کا کہا۔ تاہم پاکستانی حکام نے پروگرام کے تحت اسے 8 ارب ڈالر تک رکھنے پر آئی ایم ایف مشن کو رضا مند کر لیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس کے ساتھ دونوں فریقین کے درمیان مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کے لیے آئندہ بجٹ میں مزید ٹیکس اقدامات اور تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس ریلیف ختم کرنے پر بھی اتفاق ہو گیا ہے۔