پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس میں شرکت کے لیے امریکہ پہنچنے کے بعد کشمیر سے متعلق ملاقاتوں کا آغاز کر دیا ہے۔
پاکستان کی وزارت اطلاعات کے مطابق عمران خان نے نیو یارک میں کشمیر اسٹڈی گروپ کے سربراہ فاروق کتھواری سے ملاقات کی۔
وزیر اعظم عمران خان سے نیو یارک میں کشمیر اسٹڈی گروپ کے بانی فاروق کتھواری کی ملاقات۔ #PMIKinUS #UNGA pic.twitter.com/LWkOgOhTM3
— Govt of Pakistan (@pid_gov) September 22, 2019
ملاقات میں بھارت کے زیرِانتظام کشمیر کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔
ملاقات میں پاکستان کی اقوام متحدہ میں مستقل مندوب ملیحہ لودھی اور دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔
Founder of Kashmir Study Group Farooq Kathwari called on Prime Minister Imran Khan in New York and discussed the prevailing situation in occupied Kashmir. #StandWithKashmir #UNGA74 #PMIKinUSA pic.twitter.com/bNgrIqenkS
— Information Ministry (@MoIB_Official) September 22, 2019
قبل ازیں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بیان بھی سامنے آیا تھا کہ عمران خان کا امریکہ کے دورے کا مقصد دنیا کو کشمیر میں جاری بھارت کے مظالم سے آگاہ کرنا ہے۔
صحافیوں سے گفتگو میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ عمران خان مختلف تھنک ٹینکس میں بھی اظہار خیال کریں گے۔ وہ مشہور تھنک ٹینکس 'ایشیا سوسائٹی' اور 'کؤنسل فار انٹرنیشنل ریلیشنز' سے بھی خطاب کریں گے۔
Foreign Minister Shah Mehmood Qureshi said that the Prime Minister%27s main purpose of the visit to the United States is to inform the world of the ongoing Indian atrocities in occupied Kashmir. #StandWithKashmir #UNGA74 #PMIKinUSA pic.twitter.com/SzU8a04uKU
— Information Ministry (@MoIB_Official) September 22, 2019
انہوں نے مزید بتایا کہ نیویارک ٹائمز سمیت کئی میڈیا اداروں کے ایڈیٹوریل بورڈز سے بھی ان کی ملاقاتیں ہوں گی۔
انہوں نے 'اسلامو فوبیا' پر پاکستان، ترکی اور انڈونیشیا کے سربراہان مملکت کی ملاقات کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اسلامو فوبیا پر دنیا نے خاص توجہ نہیں دی۔ بہت سے ایسے اقدامات ہیں جن سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ جس پر بات کی جائے گی۔
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی نیویارک میں میڈیا سے گفتگووزیراعظم عمران خان کے سات روزہ دورہ ء امریکہ کا بنیادی مقصد مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری بھارتی مظالم سے دنیا کو آگاہ کرنا ہے.#PMIKinUS #UNGA(2/2) pic.twitter.com/GpurXMATNj
— Govt of Pakistan (@pid_gov) September 21, 2019
خیال رہے کہ عمران خان خود کو کشمیر کا سفیر قرار دیتے رہے ہیں جب کہ انہوں نے کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔
گزشتہ ماہ قوم سے خطاب میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ دنیا کشمیر کے لیے کچھ کرے یا نہ کرے، پاکستانی قوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑی رہے گی۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ وہ خود دنیا بھر میں کشمیر کا سفیر بنیں گے اور ان کی مکمل آزادی تک بھرپور کوشش کرتے رہیں گے۔
خیال رہے کہ عمران خان امریکہ میں سات روزہ قیام کے دوران اقوام متحدہ کی کارروائیوں میں شریک ہوں گے اور مختلف ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں کریں گے۔
وزیر اعظم عمران خان اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات 23 ستمبر کو ہو گی جب کہ 27 ستمبر کو وزیر اعظم جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی بھی 27 ستمبر کو ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ تاہم ان کا خطاب پاکستان کے وزیراعظم سے پہلے ہو گا۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے میری درخواست ہے کہ کشمیر پر ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی دورپورٹوں کی روشنی میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر پامالی کی تحقیق کیلئے فوری آزادانہ تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جائے۔ عملی اقدامات اٹھانے کا یہی وقت ہے۔
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) September 9, 2019
واضح رہے کہ عمران خان کے امریکہ آمد سے قبل پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کشمیر کا معاملہ بھرپور انداز سے اٹھائیں گے۔
دفترخارجہ کے بیان میں کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران کشمیر سے متعلق پاکستان کا موقف پیش کریں گے۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عمران خان بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کو بھی دنیا کے سامنے اجاگر کریں گے۔
دوسری جانب بھارت کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب سید اکبر الدین نے کہا تھا کہ اگر پاکستان جنرل اسمبلی میں کشمیر کا معاملہ اٹھا کر اپنا قد چھوٹا کرنا چاہتا ہے تو ضرور کرے البتہ بھارت کا قد اونچا ہی رہے گا۔
انہوں نے الزام لگایا تھا کہ پہلے پاکستان بھارت میں دہشت گردی اور دراندازی میں ملوث تھا اب وہ بھارت کے خلاف نفرت کو فروغ دے رہا ہے۔
خیال رہے کہ بھارت کی مرکزی حکومت نے 5 اگست کو آئین میں ترمیم کی تھی اور دفعہ 370 کے تحت جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر دیا تھا۔
بھارت کے آئین میں ترمیم کے بعد کشمیر میں 49 دن سے پابندیاں عائد ہیں جب کہ ذرائع مواصلات بھی معطل ہیں۔
نئی دہلی کے اقدام کے بعد دونوں پڑوسی ممالک میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے جب کہ دونوں ممالک کے رہنماوں کی جانب سے سخت بیانات بھی سامنے آئے ہیں۔