وزیرِ اعظم عمران خان کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس میں 'سول ڈرون اتھارٹی' کے قیام کی منظوری دے دی گئی ہے۔
اتھارٹی کے سربراہ سیکریٹری ایوی ایشن ڈویژن ہوں گے جب کہ دیگر ممبران میں ایئر فورس، سول ایوی ایشن، دفاعی پیداوار، داخلہ اور وزارتِ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اعلیٰ افسران شامل ہوں گے۔ تمام وفاقی اکائیوں بشمول آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان سے بھی ایک ایک نمائندہ اتھارٹی میں شامل ہوگا۔ اس کے علاوہ شعبے کے تین ماہرین بھی اتھارٹی کا حصہ ہوں گے۔
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون اتھارٹی نان ملٹری ڈرونز کو ریگولیٹ کرے گی۔ جن میں تفریح کے لیے اڑائے جانے والے ڈرونز بھی شامل ہیں۔
وزیرِ اعظم کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ سول ڈرون اتھارٹی کے قیام کا مقصد ملک میں ڈرون ٹیکنالوجی کا فروغ، ڈیولپمنٹ اور اس اہم شعبے کو ریگولیٹ کرنا ہے۔
سول ڈرون اتھارٹی کے پاس ڈرون ٹیکنالوجی کو ریگولیٹ کرنے، لائسنسوں کا اجرا، امپورٹ اور ملک میں پیداوار کی اجازت دینے کے اختیارات ہوں گے۔
اتھارٹی ڈرونز کی مینو فیکچرنگ، آپریشنز، ٹریننگ اور ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے حوالے سے ذمہ داریاں سر انجام دے گی۔ اتھارٹی کو جرمانے اور سزا، لائسنسوں کی تنسیخ اور قانونی چارہ جوئی کے اختیارات بھی حاصل ہوں گے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ڈرون ٹیکنالوجی کو کمرشل، ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ، ایگریکلچر و دیگر پرامن مقاصد کے لیے بروئے کار لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اتھارٹی کے قیام سے نہ صرف اس حوالے سے موجود خلا کو پُر کیا جا سکے گا جو ڈرون کے حوالے سے کوئی قانون نہ ہونے کی وجہ سے موجود ہے، بلکہ یہ اتھارٹی ڈرون ٹیکنالوجی کے فروغ اور اس کی ملک میں پیداوار میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ ڈرون ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال سے وسائل کا مؤثر استعمال اور سروس ڈیلیوری میں بہتری میں مدد ملے گی۔
ان کے بقول اتھارٹی کے قیام کے حوالے سے قانون سازی کے عمل کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے اور کابینہ کی منظوری کے بعد بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔
ڈرون پالیسی میں ہے کیا؟
وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کی طرف سے تیار کردہ بریفنگ کے مطابق پاکستان میں ڈرون بنانے کے حوالے سے وسیع مواقع موجود ہیں اور ان کے استعمال سے پاکستان کئی شعبوں میں آگے بڑھ سکتا ہے۔
اس مقصد کے لیے نیشنل سینٹر آف روبوٹکس اینڈ آٹومیشن (این سی آر اے) کے نام سے ایک ادارہ موجود ہے جو ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے کام کر رہا ہے۔
اس ادارے نے ڈرون ٹیکنالوجی کے حوالے سے اپنی سفارشات تیار کی ہیں تاہم حتمی طور پر کابینہ اور پھر اسمبلی میں بل لانے پر ہی اس کے بارے میں حتمی قانون سازی ہو سکے گی۔
این سی آر اے کے مطابق پاکستان میں ڈرون ٹیکنالوجی سروے اینڈ میپنگ، زرعی ترقی، نگرانی، ڈیزاسٹر رسپانس، انفراسٹرکچر کی مرمت اور ملٹری مقاصد میں استعمال ہوسکتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس وقت ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں آٹھ ہزار ڈرون موجود ہیں جن میں زیادہ تر تفریح اور میڈیا کے لیے استعمال ہو رہے ہیں اور ان کے استعمال کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔
پاکستان میں ڈرون کی درآمد اور آپریشنز کی قانونی طور پر کوئی اجازت نہیں ہے لیکن وزارتِ دفاع اور وزارتِ داخلہ کی اجازت سے ضرورت کے مطابق استثنیٰ دیا جا سکتا ہے۔
وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے ڈرون ٹیکنالوجی کے لیے جو تجاویز دی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ چار سو فٹ کی بلندی تک پرواز کرنے والے ڈرونز کے لیے سول ڈرون ریگولیٹری اتھارٹی اجازت دے گی۔ جب کہ چار سو فٹ سے زائد بلندی کی ایئر اسپیس سول ایوی ایشن اتھارٹی کے زیرِ کنٹرول ہو گی۔
سول ڈرون اتھارٹی تمام آپریشنز، ایس او پیز کی تیاری، معیارت کی نشاندہی، چار سو فٹ تک ایئر اسپیس کو ریگولیٹ کرنے اور مانیٹرنگ کی ذمہ دار ہوگی۔
اس کے ساتھ ساتھ رجسٹریشن، لائسنس، مینوفکچرنگ اور برآمد کے لیے قوائد بھی تیار کرے گی۔
وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے اپنی ابتدائی سفارشات میں اس اصول کو منظور کرنے کا کہا ہے جس کے تحت نو-پرمیشن نو-ٹیک آف، یعنی بغیر اجازت ڈرون اڑنے کی اجازت نہیں۔
وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے مطابق اس ضمن میں سافٹ ویئر تیار کیا جائے گا۔ جس کے تحت تمام اڑنے والے ڈرونز کی شناخت، ممنوع علاقوں کی نشاندہی جہاں کسی صورت ڈرونز اڑانے کی اجازت نہ ہو، کسی ممنوع علاقہ میں اڑنے والے ڈرون کی نشاندہی اور پرواز کے بعد پرواز کیے گئے ڈرون کا مکمل ریکارڈ موجود ہو۔
'چاہتے ہیں کہ ڈرون کا مفید استعمال ہو'
این سی آر اے کے چیئرمین ڈاکٹر عمر شہباز خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اس وقت ڈرون پر پابندی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کا مفید استعمال سامنے آئے۔
عمر شہباز نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت ڈرون کی کوئی مینوفکچرنگ نہیں ہو رہی اور نہ ہی اس کے استعمال پر رولز موجود ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے بعض اوقات اس سے سیکیورٹی خطرات بھی لاحق ہو جاتے ہیں۔
ان کے بقول وہ چاہتے ہیں کہ ملٹری کے علاوہ جتنے بھی ڈرونز استعمال کیے جائیں وہ مکمل طور پر ایک قاعدے کے تحت پرواز کریں اور ہر ایک کی شناخت کا ڈیٹا موجود ہو۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے چار سو فٹ کی بلندی تک پرواز کرنے والے تمام ڈرونز اس اتھارٹی کے تحت استعمال ہوں گے جب کہ اس سے زیادہ بلندی پر اڑنے والے ڈرون سول ایوی ایشن اتھارٹی کے قواعد کے تحت پرواز کریں گے۔
ڈاکٹر عمر شہباز کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس حوالے سے بہت سکوپ موجود ہے اور بہت سے ادارے اس میں اپنی کارکردگی دکھا رہے ہیں۔
ان کے بقول بہت جلد پاکستان بھی اس ٹیکنالوجی کے حوالے سے تیزی سے کام کرنے والے ممالک میں شامل ہوگا۔ لیکن فی الحال اس بارے میں باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت ہے اور اس اتھارٹی کے قیام کا مقصد ہی تمام ڈرونز کو قواعد کے تحت لانا ہے۔