|
ایک فوجی جج نے فیصلہ دیا ہے کہ 11 ستمبر کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد اور دو ساتھی ملزمان کی طرف سے اقبال جرم سے متعلق معاہدے مستند ہیں۔ اس فیصلے نے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کی جانب سے ان معاہدوں کو منسوخ کرنے کے حکم کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
یہ بات بدھ کے روز ایک سرکاری اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتائی کیوں کہ جج ائیر فورس کرنل میتھیو میک کال کے حکم کو ابھی عوامی طور پر شائع یا سرکاری طور پر اس کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
جب تک کہ سرکاری استغاثہ یا دوسرے اقبال جرم کے معاہدوں کو دوبارہ چیلنج کرنے کی کوشش نہیں کرتے، میک کال کے فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ نائن الیون کے تین ملزمان بہت پہلے کیوبا کے گوانتاناموبے میں واقع امریکی فوجی عدالت میں مجرمانہ درخواستیں داخل کر سکتے تھے، جس سے طویل عرصے سے چلنے والے اور امریکہ کے ایک مہلک ترین حملے میں قانونی طور پر مشکل کی شکار سرکاری پراسیکیوشن کو سمیٹنے کی طرف ایک ڈرامائی قدم اٹھایا جاسکتا تھا۔
اقبال جرم کے ان معاہدوں سے محمد اور دو ساتھی مدعا علیہان، ولید بن عطش اور مصطفیٰ الحوساوی، اقبال جرم کی درخواستوں کے بدلے میں سزائے موت کے خطرے سے بچ جائیں گے۔
SEE ALSO: خالد شیخ محمد اور ان کے دو ساتھی 9/11 حملوں کے اعترافِ جرم کے لیے تیارسرکاری پراسیکیوٹرز نے حکومت کے زیر اہتمام دفاعی وکلاء کے ساتھ معاہدوں پر گفت و شنید کی تھی اور گوانٹانا موبے کے بحری اڈے پر ملٹری کمیشن کے اعلیٰ ترین عہدیدار نے معاہدوں کی منظوری دی تھی۔
گیارہ ستمبر 2001 کے القاعدہ کے ان حملوں سے متعلق اقبال جرم سے متعلق یہ معاہدے، جب اس موسم گرما میں عوامی سطح پر منظر عام پر آئے تو ریپبلکن قانون سازوں اور دیگر نے انہیں فوری طور پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ حملوں میں لگ بھگ تین ہزار لوگ ہلاک ہوئے تھے۔
کچھ ہی دنوں کے اندر، آسٹن نے ایک مختصر حکم جاری کیا کہ وہ ان معاہدوں کو منسوخ کر رہے ہیں۔ آسٹن نے اس وقت کہا تھا کہ امریکی سرزمین پر کبھی بھی ہونے والے ایک سنگین ترین جرم سے منسلک ممکنہ سزائے موت کے مقدمات سے متعلق اقبال جرم کے معاہدے ایک اہم قدم تھا جس کا فیصلہ صرف وزیر دفاع کو کرنا چاہیے۔
معاہدوں، اور آسٹن کی جانب سے ان کو منسوخ کرنے کی کوشش نے، تاخیر اور قانونی دشواریوں کی حامل امریکی پراسیکیوشن کو ایک انتہائی پیچیدہ واقعہ بنا دیا ہے۔ ان میں سی آئی اے کی حراست میں تشدد کے کئی برس اور اس کے بعد مدعا علیہان کے بیانات کے قابل قبول ہونے کا تعین کرنے کے لیے جاری مقدمے کی سماعتوں کے برس شامل ہیں۔
SEE ALSO: پینٹاگان نے نائن الیون حملوں کے تین مشتبہ ملزمان سے پری ٹرائل ڈیل منسوخ کر دیپینٹاگان کے پریس سیکرٹری میجر جنرل پیٹ رائڈر نے کہا کہ پینٹاگان، جج کے فیصلے کا جائزہ لے رہا ہے اور انہوں نے فوری طور پر مزید کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
اس فیصلے کے بارے میں سب سے پہلے اطلاع، ایک عرصے تک گوانٹانا مو بے کی عدالتی کارروائیو ں کا احاطہ کرنے والی ایک لیگل نیوز سائٹ، لاڈریگن اور نیو یارک ٹائمز نے دی۔
فوجی حکام کو ابھی گوانٹانامو فوجی کمیشن کی آن لائن سائٹ پر جج کے فیصلے کو پوسٹ کرنا ہے۔ لیکن لاڈریگن نے کہا کہ میک کال کے 29 صفحات کے فیصلے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ آسٹن کے پاس اقبال جرم کے معاہدوں کو ٹاس آؤٹ کرنے کا قانونی اختیار نہیں تھا اور انہوں نے بہت تاخیر سے اس کے بعد یہ قدم اٹھایا، جب گوانٹانا موکے اعلی ترین عہدے دار پہلے ہی ڈیلز کی منظوری دے چکے تھے۔
قانون کے بلاگ نے فیصلے کے بارے میں مک کال سے یہ الفاظ منسوب کیے ہیں، آسٹن کے حکم کی تعمیل سے دفاعی سیکرٹریوں کو کسی بھی ایسے عمل پر "مکمل ویٹو پاور" ملے گا جس سے وہ متفق نہیں ہیں، جو گوانتانا موبے کے مقدمے کی صدارت کرنے والے اہلکار کی خود مختاری کے منافی ہو گا ۔‘‘
SEE ALSO: نائن الیون حملے: کیا خالد شیخ محمد سمیت دیگر ملزمان سزائے موت سے بچ جائیں گے؟نائن الیون کے ملزمان بدستور گوانتاناموبے کے حراستی مرکز میں ہیں اور ان کے خلاف مقدمات شروع کرنے کے معاملات برسوں سے مسائل کا شکار ہیں۔
اس ہفتے نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ خالد شیخ محمد، ولید بن عطش اور مصطفیٰ الحوساوی نے عمر قید کی سزا کے بدلے نائن الیون کی سازش کرنے کے جرم کا اعتراف کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، بجائے اس کے کہ وہ کسی ایسے مقدمے کا سامنا کریں جو انہیں سزائے موت تک لے جا سکتا ہو۔
پری ٹرائل معاہدوں کے ذریعے الجھے ہوئے قانونی معاملات سے نکلنے کا راستہ نکالا گیا لیکن ان معاہدوں نے صدر بائیڈن کی انتظامیہ کے سیاسی مخالفین کو تنقید کا موقع فراہم کر دیا تھا۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔