ہزاروں کرد باغی شام اور عراق کے کرد علاقوں میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف جنگ میں شامل ہو چکے ہیں اور اب وہ دہشت گردوں کے خلاف بین الاقوامی برادری کی جنگ کے لیے انتہائی اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔
کردستان ورکرز پارٹی ’پی کے کے‘ کے باغیوں کے لیے شدت پسندی کا یہ بحران ایک موقع سمجھا جا رہا ہے تاہم ترکی اب بھی ’پی کے کے‘ کے بارے میں شکوک و شہبات کا اظہار کر رہا ہے۔
ترکی کی جانب سے اب بھی ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف لڑنے والے شامی کردوں کے خلاف پابندیاں برقرار ہیں۔
حال ہی میں عراق میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجوؤں کی طرف سے کارروائیوں میں شدت آنے کے بعد اس گروپ کے جنگجو نیم خود مختار عراقی کردستان کے دار الحکومت اربیل کے قریب پہنچ گئے تھے۔
ترک اخبار ’ملیت‘ سے وابستہ سفارتی کالم نگار قادری گرسیل کے مطابق سنجار کے پہاڑوں پر کردستان ورکرز پارٹی ’پی کے کے‘ کے جنگجوؤں نے جوابی کارروائی کر کے بحران کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’پی کے کے‘ اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے خلاف سب سے موثر لڑاکا فورس کے طور پر سامنے آئی۔
’پی کے کے‘ تین دہائیوں سے ترک ریاست کے خلاف اقلیتوں کے لیے مزید حقوق کے حصول کے لیے لڑ رہی ہے۔ اس تنظیم کے لگ بھگ چھ ہزار جنگجو عراقی کردستان میں موجود ہیں۔
واشنگٹن اور یورپی یونین دونوں ہی ’پی کے کے‘ کو ایک دہشت گرد تنظیم تصور کرتے ہیں۔ اگرچہ ترک حکومت ’پی کے کے‘ کے ساتھ امن مذاکرات اور فائر بندی پر قائم ہے لیکن انقرہ کی حکومت اس گروپ کی ’دہشت گرد‘ حیثیت کو تبدیل کرنے پر بات چیت کے سخت خلاف ہے۔
عراق اور شام دونوں کی سرحد پر واقع ہونے کی وجہ سے ترکی ’آئی ایس‘ کے خلاف جنگ کی بین الاقوامی کوششوں میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔