پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے طیارے کو گزشتہ ماہ کراچی میں پیش آنے والے حادثے کی عبوری تحقیقاتی رپورٹ پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کر دی گئی ہے جس میں حادثے کا ذمہ دار پائلٹس اور ایئر ٹریفک کنٹرولر کو قرار دیا گیا ہے۔
بدھ کو قومی اسمبلی میں طیارہ حادثے کی عبوری رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا کہ پائلٹس نے دوران پرواز کسی تیکنیکی خرابی کی شکایت نہیں کی۔
غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ جہاز نے کراچی ایئر پورٹ کے لیے جب 'اپروچ' بنائی تو رن وے سے 10 ناٹیکل میل دور طیارے کی بلندی مقررہ حد 2500 فٹ سے کہیں زیادہ 7200 فٹ تھی۔ اے ٹی سی نے کیبن کریو کو آگاہ کیا کہ وہ اپنی بلندی کم کرنے کے لیے دوبارہ لینڈنگ اپروچ بنائیں۔ لیکن پائلٹ نے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں وہ 'مینج' کر لیں گے۔
وزیر ہوا بازی نے کہا کہ لاہور سے لے کر کراچی تک کے سفر میں پائلٹس کرونا وبا سے متعلق گفتگو کرتے رہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کا فوکس نہیں تھا۔ کیوں کہ اُن کے خاندان کے افراد بھی کرونا وبا سے متاثر تھے۔
غلام سرور خان نے کہا کہ ایئر ٹریفک کنٹرولر بھی اپنی ہدایات پر عمل کرانے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اُنہوں نے کہا کہ لینڈنگ اپروچ کے وقت بھی جب پائلٹ سے بلندی کم کرنے کا کہا گیا تو اُس نے کنٹرول ٹاور کی ہدایات نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ کرونا پر گفتگو شروع کر دی۔
غلام سرور خان نے کہا کہ رن وے سے 10 ناٹیکل میل دور پہلے طیارے کے لینڈنگ گیئر کھولے گئے اور حیران کن طور پر پانچ ناٹیکل میل پر لینڈنگ گیئر دوبارہ بند کر دیے گئے۔
اُنہوں نے کہا کہ طیارے نے لینڈنگ گیئر کے بغیر رن وے پر لینڈنگ کے مقررہ مقام 1500 فٹ یا تین ہزار فٹ سے بھی آگے 4500 فٹ پر لینڈنگ کی کوشش کی۔ طیارے کے انجنز تین دفعہ رن وے سے ٹکرائے جس کے بعد طیارہ دوبارہ ہوا میں بلند ہوا۔
غلام سرور خان نے کہا کہ یہ عبوری رپورٹ ہے البتہ تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ آنے میں ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
اُنہوں نے کہا طیارہ پرواز کے لیے بالکل ٹھیک تھا اور پروازیں دوبارہ کھلنے کے بعد چھ بار اس نے کامیاب پرازیں مکمل کیں۔
غلام سرور خان نے کہا کہ بدقسمتی سے یہ پہلا واقعہ نہیں۔ 72 سالوں میں 12 واقعات ہوئے۔ اس سے پہلے ہونے والے حادثات کی بروقت انکوائری ہوئی نہ حقائق عوام کے سامنے لائے گئے۔
اُنہوں نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان کی ذاتی دلچسپی اور کرونا کی صورتِ حال کے باوجود انکوائری کمیشن نے ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیے۔
خیال رہے کہ حادثے کی تحقیقات کے لیے پاکستان ایئر فورس کے سینئر افسران پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔
غلام سرور خان نے کہا کہ جن گھروں پر طیارہ گرا اُن کا سروے مکمل کر لیا گیا ہے۔ 29 گھروں کو نقصان پہنچا جن کے نقصان کا ازالہ کیا جائے گا۔
غلام سرور خان نے انکشاف کیا کہ پی آئی اے میں کام کرنے والے 40 فی صد پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں۔ پائلٹس کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا جاتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ جعلی لائسنس رکھنے والے پائلٹس کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔
خیال رہے کہ 22 مئی کو لاہور سے کراچی جانے والے پی آئی کا طیارہ لینڈنگ سے چند لمحے قبل آبادی پر گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ حادثے میں عملے کے آٹھ ارکان سمیت 97 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ حادثے میں دو افراد معجزانہ طور پر محفوظ رہے تھے۔
پالپا کا ردعمل
سیکریٹری جنرل پاکستان پائلٹس ایسوسی ایشن (پالپا) عمران ناریجو نے عبوری رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ مکمل رپورٹ نہیں ہے اس میں کئی خامیاں ہیں۔
مقامی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا دونوں پائلٹس خود کش مشن پر نہیں نکلے تھے وہ بھی انسان تھے اور اُنہیں بھی اپنی جان عزیز تھی۔
عمران ناریجو نے کہا کہ اسی لیے ہم مطالبہ کرتے تھے کہ تحقیقاتی بورڈ میں مزید لوگ شامل ہونے چاہئیں۔
اُنہوں نے کہا کہ تحقیقاتی رپورٹ میں تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا چاہیے۔