پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد کئی شہروں میں پیٹرول کی قلت کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے ملک میں پیٹرول کی قلت پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی اور تین دن کے اندر پیٹرول کی دستیابی یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔
وزارت خزانہ کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کو 10 دن گزرنے کے بعد بھی ملک بھر میں پیٹرول پمپس پر نئے نرخ پر پیٹرول دستیاب نہیں اور اس کی قلت کا سلسلہ جاری ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے ساتھ جڑواں شہر راولپنڈی کے شہری علاقوں میں پیٹرول کی دستیابی کی صورت حال میں کسی حد تک بہتری آئی ہے تاہم دیہی علاقوں کے پمپس پر پیٹرول کی قلت برقرار ہے۔
'حکومت فوری تحقیقات کر کے مسئلہ حل کرے'
اکثر مقامات پر پیٹرول پمپس پر خریداروں کو محدود مقدار میں پیٹرول دیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین نے ایوان کے اجلاس مختلف نکات اٹھائے۔ حزب اختلاف کی بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے خرم دستگیر نے کہا کہ روز ایک نئی قیامت ڈھائی جا رہی ہے۔
خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس، ٹڈی دل کے فصلوں پر حملے اور دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ پیٹرول کے بحران کی وجہ سے عوام لائنوں میں لگنے پر مجبور ہیں۔ اس معاملہ پر حکومت فوری تحقیقات کر کے مسئلہ حل کرے۔
پیٹرول کی قلت پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے:وزیرِ اعظم
پیٹرول کی قلت کے معاملے پر وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیرِ اعظم عمران خان نے وزارتِ توانائی اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے چیئرمین پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پیٹرول کی قلت پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
کابینہ کے اجلاس میں مقررہ اسٹاک نہ رکھنے والی کمپنیوں کا لائسنس منسوخ کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
'2 لاکھ 72 ہزار میٹرک ٹن پیٹرول موجود، 12 دن کے لیے کافی ہے'
پیٹرول کی قلت کے حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ آئل کمپنیوں کی جانب سے ایندھن کے کوٹے کی مناسب خریداری نہیں کی جا رہی جس کے باعث ملک بھر میں پیٹرول کی قلت ہوئی۔ مبصرین کا دعویٰ ہے کہ بعض کمپنیوں نے قیمت کم ہونے کے بعد اسٹاک جمع کر لیا جب کہ پمپس کو پیٹرول کی سپلائی نہیں کی۔ اس معاملے میں بیشتر غیر ملکی پیٹرولیم ادارے شامل ہیں۔
پیٹرولیم ڈویژن کے ترجمان ساجد محمود قاضی کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں اوگرا اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کیا جا رہا اور اسٹاک رکھنے والوں کو نوٹس بھی جاری کیے جا رہے ہیں۔
ساجد محمود قاضی نے کہا کہ پاکستان میں تین لاکھ 76 ہزار میٹرک ٹن ڈیزل موجود ہے جو کہ 17 دن کے لیے کافی ہے جب کہ 2 لاکھ 72 ہزار میٹرک ٹن پیٹرول موجود ہے جو کہ 12 دن کے لیے کافی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول آئل درآمد اور سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے لیے لائسنس کی شرائط میں شامل ہے کہ 20 سے 21 دن کا اسٹاک رکھنا ضروری ہے لیکن بعض عناصر ایسے ہیں جو اس صورت حال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنا اسٹاک سیل نہیں کر رہے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ پیٹرول کی قلت آئندہ چند روز میں ختم ہو جائے گی۔ عوام اس وقت صرف اپنی ضرورت کا کم سے کم پیٹرول بھروائیں اور ٹینکس فل کروانے سے گریز کریں۔
'ڈیلرز کو پیٹرول مل ہی نہیں رہا اس کے باوجود چالان ہو رہے ہیں'
اس بارے میں آئل ڈیلرز ایسویسی ایشن کے رہنما عبد السمیع خان کہتے ہیں کہ ڈیلرز کو پیٹرول مل ہی نہیں رہا اس پر ڈیلرز کے چالان کیے جا رہے ہیں۔
عبد السمیع خان نے کہا کہ کمپنیاں تیل کی سپلائی پوری نہیں کر رہیں۔ اگر کمپنیاں ایسا کر رہی ہیں تو حکومت کو چاہیے کہ کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کریں۔ پیٹرول پمپ مالکان کو نوٹسز دینا اور انہیں بند کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔
ان کے بقول یہ سب اوگرا کی ذمہ داری ہے کہ وہ کمپنیوں کے ساتھ مل کر پمپس پر سپلائی بحال کرائے۔