بندش کے باعث لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے جبکہ سنیماانڈسٹری کی بحالی کے لئے ہونے والی کوششوں کو بھی شدید دھچکا پہنچا ہے۔
پشاور میں 2 اور 9 فروری کو سنیماہالز میں ہونے والے دھماکوں کے پس منظر اور سیکورٹی کے نامناسب انتظامات کے باعث پولیس کی جانب سے تمام سینما ہالز عارضی طور پر بند کر دیئے گئے ہیں۔ اس بندش کے باعث لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے جبکہ سنیما انڈسٹری کی بحالی کے لئے ہونے والی کوششوں کو بھی اس سے شدید دھچکا پہنچا ہے۔
ادھر کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں جہاں جدید ترین سنیما ہالز کے ساتھ ساتھ ملکی انڈسٹری میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے، جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں وہیں سنیما انڈسٹری کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔
عارضی بندش کا ایک تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ساڑھے پانچ ملین روپے کی لاگت سے منعقد کئے جانے والے سندھ فیسٹیول اور اس کے تحت ہونے والے انٹرنیشنل فلم فیسٹیول سے بہتر ہوتی پاکستان کا سافت امیج ایک مرتبہ پھر دھندلا ہو گیا ہے۔
تجزیہ نگاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیس حکام نے بلا سوچے سمجھے یہ اقدام اٹھایا ہے لیکن اس کے اثرات نہایت نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ دوسری جانب پشاور پولیس کا موقف یہ ہے کہ سنیما ہالز میں جب تک سیکورٹی کے انتظامات بہتر نہیں کرلئے جاتے، سنیماہالز بند رہیں گے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے کو پشاور سے موصولہ اطلاعات کے مطابق شہر کے بیشتر سنیماہالز پر تعینات سیکورٹی اہلکاروں کو ڈیلی ویجز یعنی روزانہ اجرت پر رکھا جاتا ہے۔ یہ اجرت نہایت کم ہوتی ہے لہذا سیکورٹی پر مامور افراد اپنے فرائض کی انجام دہی میں لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ عام تاثر یہی ہے کہ 2 اور 9 فروری کو ہونے والے دھماکوں کا اصل ذمے دار بھی سیکورٹی میں لاپرواہی برتنے کو ہی ٹھہرایا جارہا ہے۔
کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق سنیماہالز کے سیکورٹی پلان کے مطابق فلم شروع ہونے کے بعد کسی کو بھی ہال میں جانے کی اجازت نہیں لیکن سینما انتظامیہ نے اس اصول کو نظر انداز کیا۔ یہی نہیں بلکہ انٹرول کے دوران بھی بے روک ٹوک آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
کراچی اور لاہور کے سنیماہالز کا رخ کرنے والے فلم بینوں پر سنیماہالز میں دھماکوں، حملوں اور ان کی بندش کا برا اثر پڑ رہا ہے اور لوگوں نے ابھی سے احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے سنیما جا کر فلمیں دیکھنے کے رجحان میں کمی لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
نیا سیکورٹی پلان۔۔۔نئے قواعد
پشاور کے ایس پی سٹی فیصل مختار کے مطابق سینما مالکان کو تین دن میں سیکورٹی انتظامات بہتر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ایس پی سٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ سنیما مالکان کے ساتھ مل کر قواعد و ضوابط طے کئے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سنیما ہالز کی عارضی بندش کی ہدایات وزارت داخلہ کی جانب سے موصول ہوئی ہیں۔
فلم دیکھنے کے لئے بھی شناختی کارڈ لازمی
صوبائی حکومت کی جانب سے سینما گھروں کے لئے جاری نئے قوائد و ضوابط کے مطابق 18 سال سے کم عمر افراد کے فلم دیکھنے پر پابندی ہو گی جبکہ فلم دیکھنے کے شوقین افراد کو اپنا اصلی شناختی کارڈ ساتھ لانا ہوگا۔ سنیماہالز میں جانے سے قبل ان کا دستاویز ثبوت بھی سنیما انتظامیہ کو اپنے پاس محفوظ رکھنا ہوگا۔
نئے قوائد و ضوابط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سینما مالکان ہالز کے اندر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کریں۔ سینما ہالز کے اندر آنے والوں کے لئے صرف ایک گیٹ رکھا جائے۔ کسی کو بھی بار بار سنیما سے باہر جانے یا اندر آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ہالز کے اندر آتے وقت ہر شخص کو جامع تلاشی بھی دینا ہوگی۔
ادھر کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں جہاں جدید ترین سنیما ہالز کے ساتھ ساتھ ملکی انڈسٹری میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے، جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں وہیں سنیما انڈسٹری کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔
عارضی بندش کا ایک تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ساڑھے پانچ ملین روپے کی لاگت سے منعقد کئے جانے والے سندھ فیسٹیول اور اس کے تحت ہونے والے انٹرنیشنل فلم فیسٹیول سے بہتر ہوتی پاکستان کا سافت امیج ایک مرتبہ پھر دھندلا ہو گیا ہے۔
تجزیہ نگاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیس حکام نے بلا سوچے سمجھے یہ اقدام اٹھایا ہے لیکن اس کے اثرات نہایت نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ دوسری جانب پشاور پولیس کا موقف یہ ہے کہ سنیما ہالز میں جب تک سیکورٹی کے انتظامات بہتر نہیں کرلئے جاتے، سنیماہالز بند رہیں گے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے کو پشاور سے موصولہ اطلاعات کے مطابق شہر کے بیشتر سنیماہالز پر تعینات سیکورٹی اہلکاروں کو ڈیلی ویجز یعنی روزانہ اجرت پر رکھا جاتا ہے۔ یہ اجرت نہایت کم ہوتی ہے لہذا سیکورٹی پر مامور افراد اپنے فرائض کی انجام دہی میں لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ عام تاثر یہی ہے کہ 2 اور 9 فروری کو ہونے والے دھماکوں کا اصل ذمے دار بھی سیکورٹی میں لاپرواہی برتنے کو ہی ٹھہرایا جارہا ہے۔
کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق سنیماہالز کے سیکورٹی پلان کے مطابق فلم شروع ہونے کے بعد کسی کو بھی ہال میں جانے کی اجازت نہیں لیکن سینما انتظامیہ نے اس اصول کو نظر انداز کیا۔ یہی نہیں بلکہ انٹرول کے دوران بھی بے روک ٹوک آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
کراچی اور لاہور کے سنیماہالز کا رخ کرنے والے فلم بینوں پر سنیماہالز میں دھماکوں، حملوں اور ان کی بندش کا برا اثر پڑ رہا ہے اور لوگوں نے ابھی سے احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے سنیما جا کر فلمیں دیکھنے کے رجحان میں کمی لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
پشاور کے ایس پی سٹی فیصل مختار کے مطابق سینما مالکان کو تین دن میں سیکورٹی انتظامات بہتر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ایس پی سٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ سنیما مالکان کے ساتھ مل کر قواعد و ضوابط طے کئے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سنیما ہالز کی عارضی بندش کی ہدایات وزارت داخلہ کی جانب سے موصول ہوئی ہیں۔
فلم دیکھنے کے لئے بھی شناختی کارڈ لازمی
صوبائی حکومت کی جانب سے سینما گھروں کے لئے جاری نئے قوائد و ضوابط کے مطابق 18 سال سے کم عمر افراد کے فلم دیکھنے پر پابندی ہو گی جبکہ فلم دیکھنے کے شوقین افراد کو اپنا اصلی شناختی کارڈ ساتھ لانا ہوگا۔ سنیماہالز میں جانے سے قبل ان کا دستاویز ثبوت بھی سنیما انتظامیہ کو اپنے پاس محفوظ رکھنا ہوگا۔
نئے قوائد و ضوابط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سینما مالکان ہالز کے اندر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کریں۔ سینما ہالز کے اندر آنے والوں کے لئے صرف ایک گیٹ رکھا جائے۔ کسی کو بھی بار بار سنیما سے باہر جانے یا اندر آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ہالز کے اندر آتے وقت ہر شخص کو جامع تلاشی بھی دینا ہوگی۔