سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سپیشل کورٹ کی جانب سے تفصیلی فیصلہ دے دیا گیا ہے۔ اس فیصلے میں اگرچہ پرویز مشرف کے خلاف سزا دینے کے فیصلے کی تفصیلی وجوہات دی گئی ہیں مگر آج پاکستان میں سوشل میڈیا پر تفصیلی فیصلے کا پیرا 66 توجہ کا مرکز بنا رہا۔
اس پیرا میں فاضل جج جسٹس وقار سیٹھ نے لکھا کہ تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کو یقینی بنائیں کہ مفرور مجرم کو سزا دی جائے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ اگر مشرف وفات جائیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر ڈی چوک پر پھانسی دی جائے۔
اس تجویز نے فیصلے کی دیگر تفصیلات کو پس پشت ڈال دیا ہے اور بحث مکمل طور پر اس نقطے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر اس فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے نتیجے میں ایسے لوگ جج بن گئے ہیں جن کی اہلیت اور علم پر سنجیدہ سوالات ہیں۔
افتخار چوہدری کی بحالی کے نتیجے میں ایسے لوگ بھی جج بن گئے جن کی اھلیت اور علم پر سنجیدہ سوالات ہیں، آگ سے کھیلنے کے شوقین حضرات کو علم ہی نہیں کہ جل بھی سکتے ہیں، نہ لفظ چننے کی اھلیت نہ بیان کا سلیقہ ۔۔ یہ ریت نئ نہیں لیکن تاریخ کا سبق ہے کہ کوئ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا pic.twitter.com/W41Yk116XV
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) December 19, 2019
انہوں نے لکھا کہ آگ سے کھیلنے کے شوقین حضرات کو علم نہیں کہ جل بھی سکتے ہیں۔
گورنر سندھ عمران اسمعیل نے لکھا کہ فیصلوں سے انصاف کی خوشبو آنی چاہئے نہ کہ ذاتیات کی بدبو۔
سینئیر صحافی کامران خان نے لکھا کہ "اس غیر قانونی غیر انسانی فیصلے اور لکھنے والے کو تاریخ روند دے گی۔"
لاش کو گھسیٹ کر ڈی چوک لایا جاۓ تین روز لاش لٹکتی رہے صرف لاش لٹکتی نہ رہے اس دوران پانچ بار ٹانگا جائے یہ سزا ہزاروں جانیں پاکستان پر نچھاور کرنے والی پاک فوج کے سربراہ کے لئے سنانے والا جج ہےمسلمان پاکستانی ہےاس غیرقانونی غیر انسانی فیصلے اور لکھنے والے کو تاریخ روند دے گی
— Kamran Khan (@AajKamranKhan) December 19, 2019
صحافی زیب النسا برکی کا کہنا تھا کہ یہ الفاظ ’اون گول‘ کے مطابق ہیں۔ ان الفاظ کی وجہ سے وہ مثال جو اس فیصلے سے قائم ہو رہی تھی، سارا مکالمہ اس سے دور چلا گیا ہے۔
Two cents on the #MusharafVerdict Those lines are an own-goal; they take away from the judgment; they take away from the precedent that was being set; they%27ve made a mockery of the whole debate. Not sure what the thinking was because even a five-year-old can see what they%27ve done
— Zebunnisa Burki (@zburki) December 19, 2019
سماجی علوم کی ماہر ندا کرمانی نے لکھا کہ اصل معاملہ فوج کی جانب سے جمہوری عمل میں مداخلت کا تھا۔ جسٹس سیٹھ کے الفاظ اس معاملے سے توجہ ہٹانے کا باعث بن گئے ہیں۔
آج ٹویٹر پر پرویز مشرف کے کیس کے علاوہ برطانوی تاریخ کے نامور فوجی رہنما اور سیاستدان اولیور کرامویل کا نام بھی ٹرینڈ کرتا رہا۔
سینئیر صحافی محمد ضیاالدین نے لکھا کہ پیرا 66 سے مجھے 17ویں صدی کے برطانوی فوجی، جو بعد میں سیاستدان بن گئے ان کا انجام یاد آیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پرویز مشرف نے جب مارشل لا لگایا تو اولیور کرامویل کا ذکر کیا تھا۔
Paragraph # 66 of detailed verdict in Musharraf’s case reminds me of 17th century British soldier-turned-politician Oliver Cromwell’s fate. Interestingly, Musharraf after taking over had justified his action by referring 2 Oliver’s coup.
— Muhammad Ziauddin (@MuhammadZiauddi) December 19, 2019
سینئیر کورٹ رپورٹر اے وحید مراد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سال جب مارچ میں پرویز مشرف کیس کی ایک اپیل سپریم کورٹ میں آئی تو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اولیور کرام ویل کا ذکر کیا تھا کہ ان کی لاش کی باقیات کو نکال کر پھانسی دی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ پیرا 66 میں دی گئی تجویز کی وجوہات جج صاحب نے اپنے فیصلے کے پیرا 67 میں دی کہ ملزم چونکہ موجود نہیں ہے اس لیے انہیں یہ سزا دی جا رہی ہے۔
وحید مراد نے کہا کہ ملک کے قانونی حلقے یہی کہہ رہے ہیں کہ یہ پیراگراف نہیں لکھنا چاہئے تھا۔ اس پیرا کی وجہ سے فیصلے کے دیگر اجزا سے توجہ ہٹ گئی ہے۔
سینئیر صحافی حامد میر نے لکھا کہ پیرا 66 اتنا اہم نہیں ہے۔ یہ ایک جج کی رائے ہے۔ دوسرے جج صاحب نے اس سے اختلاف کیا ہے۔
سوشل میڈیا صارف محسن حجازی نے لکھا کہ اس فیصلے پر آج وہ بھی دہائیاں دے رہے ہیں جو اسلامی صدارتی نظام کے فوری نفاذ کے ساتھ ہی "ملک دشمن کرپٹ" صحافیوں، سماجی و سیاسی کارکنوں کی "سرعام چوک میں اجتماعی پھانسی" کا روزانہ سال کے تین سو پینسٹھ دن مطالبہ کرتے ہیں۔ طبیعت میں یہ نرم خوئی خوش آئند ہے۔