امریکی وزارت دفاع ’پینٹا گان‘ نے کہا ہے کہ حالیہ مہینوں میں افغانستان کی سکیورٹی صورت حال ابتر ہو رہی ہے۔
گزشتہ سال کے اواخر میں افغانستان سے بڑی تعداد میں امریکی فورسز کے انخلا کے بعد طالبان کی طرف سے افغان فورسز پر حملوں میں تیزی آئی ہے۔
پینٹاگان نے امریکی قانون سازوں کے لیے تیار کی گئی ایک جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ 2014 کے مقابلے میں رواں سال جنوری سے نومبر کے وسط تک افغان شہریوں کے جانی نقصان میں 27 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق افغان فورسز لڑنے کے لیے تیار ہیں تاہم ملک کو کچھ علاقوں میں نازک جب کہ دیگر میں بگڑتی ہوئی سکیورٹی صورت حال کا سامنا ہے۔
رپورٹ میں طالبان کی شورش میں تیزی کو امریکی، اتحادی، افغان فورسز اور عوام کے لیے بدستور خطرہ قرار دیا گیا ہے۔
افغانستان میں اب بھی 9,800 امریکی فوجی موجود ہیں جو انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان فورسز کو معاونت فراہم کررہے ہیں۔ تاہم امریکہ نے بڑے پیمانے پر افغانستان میں فوجی کارروائیاں ختم کر دی ہیں۔
امریکی وزارت دفاع کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی سلامتی کو مختلف گروپوں کی طرف سے خطرات درپیش ہیں جن میں زیادہ نمایاں طالبان اور حقانی نیٹ ورک ہیں۔
جب کہ دیگر میں القاعدہ اور داعش سے منسلک عسکریت پسند شامل ہیں۔
پینٹاگان کی جائزہ رپورٹ کے مطابق افغان سکیورٹی فورسز کی کارکردگی لڑائی کے اس پورے دورانیے اور گزشتہ چھ ماہ کے دوران غیر متوازن اور ملی جلی رہی ہے۔
دوسری طرف افغان سکیورٹی فورسز نے پیر کی شام کابل میں ایک کارروائی کر کے دو ٹن دھماکا خیز مواد امونیم نائیڑیٹ کو قبضے میں لے کر تباہ کر دیا۔
افغان نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی کا کہنا ہے کہ یہ مواد بیس تھیلوں میں چھپایا گیا تھا۔
افغان انٹلیجنس کے ایک عہدیدار نے خبر رساں ادارے روئیڑز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ قبضے میں لیا گیا مواد کار بم اور خود کش دھماکوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔
حالیہ مہینوں میں طالبان عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں متعدد افغان شہری اور سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے قندھار کے ہوائی اڈے پر ہوئے حملے میں لگ بھگ 60 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔
قندھار ایئر پورٹ پر حملہ رواں سال ستمبر میں افغانستان کے شمالی شہر قندوز پر طالبان حملے کے بعد سے دوسری بڑی کارروائی تھی۔