|
امریکی محکمہ دفاع نے روس کے بیان کو ناعاقبت اندیشانہ کہتے ہوئے اس کے ان نئے الزامات کو مسترد کر دیا ہے کہ امریکہ یوکرین کی جنگ کو مزید خطرناک صورتِ حال کی جانب دھکیل رہا ہے؛ اور کہا ہے کہ ماسکو اور اس کے اتحادی کشیدگیوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔
امریکی محکمہ دفاع کے عہدیداروں نے پیر کے روز ان خبروں کی تصدیق نہیں کی کہ صدر جو بائیڈن نے کیف کو امریکہ کے فراہم کردہ دور مار میزائیل روس کے اندر تک داغنے کی اجازت دے دی ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ روس کے پاس شکایت کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
وائس آف امیریکہ کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے پینٹاگان کی ڈپٹی پریس سیکریٹری، سبرینہ سنگھ نے کہا، "جلتی پر تیل کاکام یہ حقیقت کر رہی ہے کہ اب لڑائی میں شمالی کوریا کے فوجی بھی شامل ہو رہے ہیں۔"
انہوں نے کہا، "ہم بات کر رہے ہیں شمالی کوریا کے فوجیوں کے، ایک خودمختار علاقے پر، یو کرین کے ایک خودمختار علاقے پر قبضے کے لیے استعمال ہونے کی۔ اور ہم یقیناً اسے اشتعال انگیزی خیال کرتے ہیں۔"
امریکہ کا اندازہ ہے کہ شمالی کوریا کے کم از کم 11,000 فوجی کرسک کے اس علاقے کی طرف بڑھ رہے ہیں جس پر یو کرین نے اگست میں اچانک حملہ کر کے قبضہ کر لیا تھا اور اب بھی اس پر اس کا قبضہ ہے۔
سنگھ نے پیر کے روز کہا، "ہمیں پوری توقع ہے کہ یہ فوجی جنگی کارروائیوں میں حصہ لیں گے۔"
اس سے پہلے روس کے ترجمان، دیمتری پاسکوف نے کہا تھا کہ تین سال طویل اس جنگ میں امریکی پالیسی تبدیل ہونے اور تنازعے میں نئی سمت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
انہوں نے کہا،"یوکرین نے امریکہ کے مہیا کردہ دور مار میزائیل روس کے اندر فائر کیے تو تنازعہ بڑھ جائے گا،"
روس نے امریکہ کو یہ انتباہ ایسے وقت کیا جب میڈیا میں اطلاعات ہیں کہ صدر بائیڈن نے یو کرین کو اس کی اجازت دے دی ہے کہ وہ امریکہ کے دیے ہوئے دور مار میزائیل روس پر داغ سکتا ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اس پر کھلے بندوں تبصرہ نہیں کیا لیکن پیسکوف نے نامہ نگاروں کی توجہ پوٹن کے ستمبر میں دئیے گئے ایک بیان کی جانب دلائی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر یوکرین کو روس کو ہدف بنانے کی اجازت دے دی گئی تو اس سے تنازعے میں داؤ پر لگے مفادات میں اضافہ ہو جائے گا۔
تب پوٹن نے کہا تھا، "اس سے تنازعے کی نوعیت ڈرامائی طور پر تبدیل ہو جائے گی۔ اس کے معنی ہوں گے کہ نیٹو ممالک یعنی امریکہ اور یورپی ممالک روس کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں۔"
پاسکوف کا دعویٰ تھا کہ مغربی ممالک کی جانب سے دور مار ہتھیار اور اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت مہیا کیے جانے سے جنگ میں ان کے ملوث ہونے کی نوعیت تبدیل ہو جائے گی۔
اب تک امریکہ نے یو کرین کو کم فاصلے تک مار کرنے والے امریکی ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت دی تھی جن میں تیز رفتار آرٹلری راکٹ سسٹمز شامل تھے جو جنگ کے ابتدائی دنوں میں یوکرین کو خارکیف کے علاقے میں سرحد سے روس کے خلاف استعمال کرنے کے لیے تھے۔
ان راکٹوں کی مار 80 کلو میٹر تک تھی۔ لیکن بائیڈن کے حالیہ فیصلے کے نتیجے میں یوکرین کو آرمی ٹیکٹیکل میزائیل سسٹم یا ATACMS راکٹ استعمال کرنے کی اجازت ہوگی جو 300 کلومیٹر تک اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
واشنگٹن سے اجازت کے لیے یوکرین کی کوششیں
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی مہینوں سے یہ کوشش کر رہے تھے کہ واشنگٹن انہیں دور مار راکٹ روس کے اندر داغنے کی اجازت دے تاکہ وہ روس کے ہتھیاروں کے ذخیرے کو نشانہ بنا سکیں، اس سے پہلے کہ روس یہ راکٹ اور دیگر ہتھیار یو کرین کے شہروں اور بجلی کے گرڈز کے خلاف استعمال کرے۔
اب تک صدر بائیڈن نے اس کی اجازت نہیں دی تھی کیونکہ خدشہ تھا کہ اس سے تنازعہ بڑھ جائے گا اور امریکی قیادت والے فوجی اتحاد نیٹو کے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ لیکن شمالی کوریا کی جانب سے اپنے فوجی روس کی فورسز کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے تعینات کیے جانے سے واشنگٹن میں تشویش پیدا ہوگئی ہے۔
SEE ALSO: امریکہ کی یوکرین کو روس کے خلاف لانگ رینج میزائل کے استعمال کی اجازت: رپورٹسامریکہ کا کہنا ہے کہ نئے میزائیل پہلے روس اور شمالی کوریا کی ان فورسز کے خلاف استعمال کیے جا سکتے ہیں جو روس کے جنوب میں کرسک کا علاقہ دوباہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جس پر یو کرین نے اگست کے مہینے میں اچانک حملہ کر کے قبضہ کر لیا تھا۔
آرمی ٹیکٹیکل میزائیل سسٹم ہے کیا؟
آرمی ٹیکٹیکل میزائیل سسٹم یا ATACMS دور مار گائیڈڈ میزائیل ہیں جنہیں امریکہ کی ائیرو سپیس اینڈ ڈیفنس کمپنی لاک ہیڈ مارٹن نے تیار کیا ہے۔ یہ میزائیل 227 کلو گرام تک کا ہتھیار لے جا سکتا ہے اور اس کی رفتار اتنی تیز ہوتی ہے کہ اسے روکنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس راکٹ میں خاص جی پی ایس سسٹم لگا ہے اور یہ کلسٹر ہتھیار لیجا سکتا ہے۔
کلسٹر ہتھیار وہ دھماکہ خیز ہتھیار ہیں جو داغے جانے کے بعد جب فضا میں پھٹتے ہیں تو ایک کے بجائے سینکڑوں چھوٹے چھوٹے بم پھٹ جاتے ہیں۔ انہیں عموماً گاڑیوں، رن ویز اور پاور لائنز کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ جانی نقصان کا باعث بھی بنتے ہیں۔
بائیڈن کی پالیسی میں تبدیلی کیوں؟
یوکرین کو امریکی ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت سے متعلق بائیڈن کی پالیسی میں تبدیلی سے پہلے روس کے کلسٹر ہتھیاروں والے ایک بیلسٹک میزائیل نے اتوار کی شام یوکرین کے شمال میں واقع شہر سمی کے رہائشی علاقے کو نشانہ بنایا تھا جس میں دو بچوں سمیت گیارہ افراد ہلاک اور 84 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔
اس حملے سے پہلے دن کے شروع میں روس نے یوکرین کے توانائی کے زیریں ڈھانچے پر بمباری کی ۔
SEE ALSO: روس کا یوکرین کے دارالحکومت کیف پر کروز اور بیلسٹک میزائلوں سے حملہعلاقے کے گورنر اولیہہ کیپر کے مطابق، پیر کے روز روس کے میزائیل حملے سے یوکرین کے جنوب میں اوڈیسا کی دو رہائیشی عمارتوں میں آگ بھڑک اٹھی جس سے ایک بچے سمیت کم از کم 8 افراد ہلاک اور 18زخمی ہوگئے۔
یوکرین کے صدر زیلنسکی نے کہا کہ یوکرین اور اس کے اتحادیوں کو توجہ اس پر مرکوز کرنی چاہئیے کہ روس کو جنگ ختم کرنے پر مجبور کیا جائے۔
رات کے وقت اپنے خطاب میں زیلنسکی نے کہا، "آج روس کی جانب سے جنگ کا اب تک کا سب سے بڑا اور سب سے خطرناک حملہ کیا گیا۔ 210 ڈرونز اور میزائیل ایک ساتھ داغے گئے جن میں آواز سے زیادہ تیز رفتار دور مار میزائیل بھی شامل تھے۔"
( اس خبر میں کچھ معلومات اے پی اور اے ایف پی سے بھی لی گئی ہیں)