|
امریکہ کے وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے گائیڈڈ میزائل آبدوز مشرقِ وسطیٰ بھیجنے کا اعلان کیا ہے ۔
امریکی محکمۂ دفاع کے مطابق لائیڈ آسٹن نے طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس ابراہم لنکن کے اسٹرائیک گروپ کو بھی مشرقِ وسطیٰ کی طرف مزید تیزی سے بڑھنے کا کہا ہے۔
یہ امریکی اقدام ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب امریکہ اور دیگر اتحادی اسرائیل اور حماس میں جنگ بندی کے معاہدے کے لیے کوشش کر رہے ہیں تاکہ خطے میں بڑھتے ہوئے تناؤ کو کم کیا جا سکے۔
تہران میں حماس کے سیاسی ونگ کے رہنما اسماعیل ہنیہ اور بیروت میں حزب اللہ کے سینئر کمانڈر کی موت کے بعد خطے میں کشیدگی بڑھنے سے وسیع تر جنگ کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔
حکام ان حالیہ ہلاکتوں کے جواب میں ایران اور حزب اللہ کی طرف سے حملوں پر نظر رکھے ہوئے۔
اس صورتِ حال میں امریکہ ایک بار پھر خطے میں اپنی عسکری موجودگی کو بڑھا رہا ہے۔
محکمۂ دفاع کے پریس سیکریٹری میجر جنرل پیٹ رائیڈر نے ایک بیان میں کہا کہ وزیرِ دفاع آسٹن نے اتوار کو اپنے اسرائیلی ہم منصب یوو گیلنٹ سے گفتگو کی ہے اور امریکہ کی جانب سے اسرائیل کے دفاع کے لیے ہر ممکن اقدام کے عزم کا اعادہ کیا۔
طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس ابراہم لنکن کو جو ایشیا پیسیفک میں تھا، پہلے ہی کہا جا چکا ہے کہ وہ خطے میں یو ایس ایس تھیوڈور روزویلٹ طیارہ بردار بحری جہاز اسٹرائیک گروپ کی جگہ لے لے۔
گزشتہ ہفتے آسٹن نے کہا کہ لنکن سینٹرل کمانڈ کے علاقے میں اس مہینے کے آخر تک پہنچ جائے گا۔
اس طیارہ بردار بحری جہاز پر ایف 35 لڑاکا طیارے اور ایف اے 18 طیارے بھی موجود ہیں۔
البتہ پریس سیکریٹری میجر جنرل پیٹ رائیڈر نے یہ واضح نہیں کیا کہ یو ایس ایس جارجیا گائیڈڈ میزائل آبدوز کتنی جلدی خطے میں پہنچ جائے گی۔
پینٹاگان کے مطابق وزیرِ دفاع آسٹن اور یووگیلنٹ نے غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں اور شہری نقصان کو کم کرنے کی اہمیت پر بھی بات کی۔
SEE ALSO: غزہ جنگ کے آغاز کے بعد اسرائیل میں منشیات کے استعمال میں نمایاں اضافہوزرائے دفاع کی یہ گفتگو ہفتے کی صبح غزہ میں اسکول کی عمارت میں بنائی گئی پناہ گاہ پر اسرائیلی فضائی حملے کے ایک دن بعد ہوئی ہے۔
اس اسرائیلی حملے میں کم از کم 90 افراد ہلاک اور لگ بھگ 50 زخمی ہوئے تھے۔
حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے حکام نے اس حملے کو اسرائیل کی حماس کے خلاف جنگ کے 10 ماہ کے مہلک ترین حملوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ تنازع گزشتہ برس سات اکتوبر 2023 کو حماس کے جنوبی اسرائیلی علاقوں پر دہشت گرد حملے کے بعد شروع ہوا تھا۔
حماس کے حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں فوجی اہلکاروں سمیت عام شہری بھی شامل تھے۔
حماس نے حملے میں لگ بھگ ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جن میں سے سو سے زائد افراد کو نومبر 2023 میں کچھ دن کی عارضی جنگ بندی معاہدے کے تحت رہا کر دیا گیا تھا۔
اسرائیلی حکام کے مطابق سو کے قریب افراد اب بھی حماس کی تحویل میں ہیں جب کہ 40 کے قریب یرغمالوں کی اموات ہو چکی ہے۔
SEE ALSO: اسرائیل کو حماس کے نئے سربراہ یحییٰ سنوار کی تلاشاسرائیل نے حماس کے حملے کے فوری بعد غزہ کا محاصرہ کر لیا تھا اور بمباری شروع کر دی تھی۔
حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں لگ بھگ 40 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔
اس رپورٹ میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔