پینسلوینیا: صدارتی امیدوار کی جیت کا فیصلہ کرنے والی ریاست

ویب ڈیسک — امریکہ کے صدارتی انتخاب میں سات ریاستوں کو کسی بھی امیدوار کی جیت کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے اور ان ساتوں ریاستوں میں شامل ریاست پینسلوینیا ممکنہ طور پر وہ واحد ریاست ہو گی جو کسی بھی امیدوار کی کامیابی کا فیصلہ کرے گی۔

پینسلوینیا کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار ڈیموکریٹک پارٹی کی کاملا ہیرس اور ان کے مدِ مقابل ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران سب سے زیادہ جلسے اسی ریاست میں کیے ہیں۔

پیر کو انتخابی مہم کے آخری روز بھی کاملا اور ٹرمپ نے پینسلوینیا میں گزارا اور عوامی اجتماعات سے خطاب کیے۔

دونوں ہی امیدواروں کے لیے وائٹ ہاؤس کا راستہ اسی ریاست سے گزرتا ہے۔ اس لیے اس ریاست کو ان امیدواروں کے لیے 'مسٹ وِن' یعنی سب سے لازمی کہا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ امریکہ کے صدارتی الیکشن میں کسی بھی امیدوار کو جیت کے لیے 538 میں سے کم از کم 270 الیکٹورل ووٹ درکار ہوتے ہیں۔

پولز کے مطابق 43 ریاستیں ایسی ہیں جہاں ٹرمپ اور ہیرس واضح برتری رکھتے ہیں۔ فیصلہ کن ریاستوں اور سوئنگ اسٹیٹس میں ایریزونا، جارجیا، مشی گن، نیواڈا، نارتھ کیرولائنا، پینسلوینیا اور وسکونسن شامل ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

پنسیلوینیا: وہ ریاست جو شاید صدر کا فیصلہ کرے

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ٹرمپ اور کاملا کے درمیان پینسلوینیا میں کانٹے کا مقابلہ ہے اور ریاست کے کسی بھی کونے کے چند ووٹرز بھی فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔

انیس الیکٹورل ووٹوں کے ساتھ پینسلوینیا کا شمار امریکہ کی بڑی ریاستوں میں ہوتا ہے۔ لیکن یہاں کے نتائج کے بارے میں پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے۔

ریاست پینسلوینیا پہلے ڈیموکریٹس کا مضبوط قلعہ سمجھی جاتی تھی۔ لیکن 2016 کے الیکشن میں ٹرمپ نے اس ریاست سے اپنے مدِ مقابل ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن کو شکست دے کر ڈیموکریٹک پارٹی کے قلعے میں شگاف ڈالا تھا۔

لیکن 2020 کے صدارتی انتخاب میں پینسلوینیا پھر ڈیموکریٹس کے پاس چلی گئی تھی اور موجودہ صدر جو بائیڈن نے ٹرمپ کے مقابلے میں 81 ہزار ووٹوں سے یہاں کامیابی حاصل کی تھی۔

پینسلوینیا صدر جو بائیڈن کی ہوم اسٹیٹ ہے جو یہاں کے شہر اسکرینٹن میں پلے بڑھے ہیں۔ اسی وجہ سے حالیہ برسوں میں اس ریاست میں ری پبلکن پارٹی کا اثر بڑھا ہے۔

پینسلوینیا میں ووٹ ڈالنے کے اہل افراد میں سے تقریباً نصف کالج ڈگری نہ رکھنے والے ورکنگ کلاس سفید فام شہری ہیں۔ ان میں سے بیشتر ٹرمپ کی حمایت کرتے ہیں۔

اگر شہری علاقوں میں ووٹر ٹرن آؤٹ زیادہ رہا تو اس کا فائدہ کاملا ہیرس کو پہنچے گا کیوں کہ ان علاقوں کی آبادی زیادہ متنوع ہے۔

SEE ALSO: امریکی الیکشن: دلچسپ حقائق پر ایک نظر

ایک اندازے کے مطابق اس سال لگ بھگ پونے چھ لاکھ لاطینی ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں جو نتائج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ 2020 میں بائیڈن پینسلوینیا سے صرف 81 ہزار ووٹوں سے جیتے تھے۔

دیگر سوئنگ ریاستوں کی طرح پینسلوینیا کے لوگوں کا بھی بڑا مسئلہ اکانومی ہے اس لیے کاملا اور ٹرمپ نے اس ریاست میں انتخابی مہم کے دوران مہنگائی پر قابو پانے جیسے بیانات پر بھرپور توجہ دی۔

دونوں امیدواروں نے انتخابی مہم کے آخری روز پینسلوینیا کے شہر پٹس برگ میں اپنے حامیوں سے خطاب کیا۔

ٹرمپ پٹس برگ کے بعد ریاست کے ایک اور شہر ریڈنگ پہنچے جس کے بعد انہوں نے ریاست نارتھ کیرولائنا کے شہر رالی میں کچھ وقت گزارا۔

ٹرمپ نے انتخابی مہم کا آخری جلسہ ری پبلکن پارٹی کا گڑھ سمجھی جانے والے ریاست مشی گن کے شہر گرینڈ ریپڈز میں کیا۔ ٹرمپ نے 2016 اور 2020 کی صدارتی مہم کا آخری جلسہ بھی اسی شہر میں کیا تھا۔

کاملا ہیرس نے انتخابی مہم کا آخری روز ریاست پینسلوینیا میں ہی گزارا۔

انہوں نے دن کا آغاز صدر بائیڈن کے ہوم ٹاؤن اسکرینٹن سے کیا اور اختتام ریاست کے چھٹے بڑے شہر اور ڈیموکریٹک پارٹی کے مضبوط گڑھ فلاڈیلفیا میں ایک بڑے جلسے سے کیا۔

کاملا ہیرس کی حمایت کے لیے پاپ اسٹار لیڈی گاگا اور دیگر میوزیکل گروپس سمیت سابق ٹی وی میزبان اوپرا ونفری بھی موجود تھیں۔