حکمتِ عملی کے معاملات میں برداشت کا دور ختم ہو چکا: پینس

مشترکہ اخباری کانفرنس

دورہٴ جاپان میں تقریر کرتے ہوئے، پینس نے کہا کہ امریکہ ’’اِس بات سے اُس وقت تک نہیں ہٹے گا‘‘ جب تک کوریائی جزیرے کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کا ہدف حاصل نہیں ہوجاتا، جس کے لیے ’’تمام آپشن میز پر ہیں‘‘

امریکی نائب صدر مائیک پینس نے منگل کے روز کہا ہے کہ بین الاقوامی برادری شمالی کوریا پر سفارتی اور معاشی دباؤ ڈالے، تاکہ یہ ملک جوہری ہتھیار اور بیلسٹک میزائل تشکیل دینے کا اپنا پروگرام ترک کرے۔

دورہٴ جاپان میں تقریر کرتے ہوئے، پینس نے کہا کہ امریکہ ’’اِس بات سے اُس وقت تک نہیں ہٹے گا‘‘ جب تک کوریائی جزیرے کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کا ہدف حاصل نہیں ہوجاتا، جس کے لیے ’’تمام آپشن میز پر ہیں‘‘۔

اُنھوں نے شمالی کوریا کے ساتھ اُس کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کے بارے میں ماضی میں ہونے والے بین الاقوامی مذاکرات کی کوششوں کا حوالہ دیا جن میں حالیہ چھ فریقی مذاکرات بھی شامل ہیں، جو 2009ء میں ناکام ہوئے۔ اُنھوں نے کہا کہ شمالی کوریا کی جانب سے بارہا ’’ٹوٹے ہوئے وعدے اور مزید اشتعال انگیزیاں‘‘ شامل ہیں۔

پینس نے کہا ہے کہ ’’حکمتِ عملی کے معاملات میں صبر برتنے کا دور ختم ہو چکا ہے‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ امریکہ، جاپان، جنوبی کوریا اور چین کے درمیان مکالمہ ہی بہترین پیش رفت ہوگی، تاکہ شمالی کوریا کو تنہا کیا جائے اور اُس پر دباؤ ڈالا جا سکے۔

جاپان کے وزیر اعظم شنزو آبے، جنھوں نے ٹوکیو میں پینس کی میزبانی کی، کہا ہے کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ’’تمام آپشنز‘‘ کھلے رکھنے کے انداز کے معترف ہیں۔ آبے نے مزید کہا کہ وہ شمالی کوریا کے ساتھ پُرامن مذاکرات کی توقع رکھتے ہیں، لیکن ’’محض مکالمے کی خاطر مذاکرات‘‘ کی کوئی وقعت نہیں۔

یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جس سے ایک ہی روز قبل شمالی کوریا نے ’سنپو‘ نامی سب میرین کے اپنے اڈے سے میزائل تجربے کی ناکام کوشش کی۔


امریکی وزیر دفاع جِم میٹس نے ناکام میزائل تجربے کو ناعاقب اندیشانہ اشتعال انگیزی قرار دیا ہے۔ سعووی عرب جاتے ہوئے، منگل کے روز امریکی فوجی طیارے میں، اُنھوں نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’شمالی کوریا میں ملک کے لیڈر نے بے پرواہی سے اشتعال انگیزی پھیلاتے ہوئے میزائل تجربے کی کوشش کی‘‘۔


ادھر واشنگٹن میں، وائٹ ہاؤس پریس سکریٹری شان اسپائسر نے پیر کے روز کی اخباری بریفنگ میں نامہ نگاروں سے کہا ہے کہ امریکہ پھر بھی صبر کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ اسپائسر کے بقول، ’’میرے خیال میں، کوئی راستہ تلاش کرنے کی غرض سے ہم خاص طور پر چین کے ساتھ مل کر کام کریں گے‘‘۔