پاکستان میں جنسی زیادتی کے جرم میں کیا سزائیں ہو سکتی ہیں؟

فائل فوٹو

پاکستان میں کم عمر لڑکوں اور بالغ افراد کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں جن میں بیشتر ملزمان صلح صفائی کے بعد سزا سے بچ جاتے ہیں۔ پاکستان کے سماجی حلقوں میں اِن دنوں مدرسہ طالب علم زیادتی کیس موضوعِ گفتگو بنا ہوا ہے۔ اس کیس سے متعلق ماہرینِ قانون کا کہنا ہے کہ کیس میں شامل کردہ دفعات اور تمام شواہد کو دیکھنا ہو گا۔

کچھ حلقے ملزم مفتی عزیز الرحمٰن کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں تو دوسری جانب ایسی رائے بھی پائی جاتی ہے کہ یہ مفتی عزیزالرحمٰن کے خلاف کوئی سازش ہے۔

ملزم نے مقامی عدالت میں اعترافِ جرم سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُس کے خلاف سازش کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ حال ہی میں لاہور کے ایک مدرسے کے استاد مفتی عزیز الرحمٰن کی طالب علم سے زیادتی کی ایک مبینہ ویڈیو منظرِ عام پر آئی تھی جس کے بعد مقامی پولیس نے ملزم کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 377 اور 506 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

مدرسے کی انتظامیہ نے معاملہ سامنے آنے پر مفتی عزیز الرحمٰن کو مدرسے سے نکال دیا تھا جب کہ وفاق المدارس نے مدرسے کی رکنیت بھی منسوخ کر دی تھی۔

پیر کو پولیس نے ملزم مفتی عزیز الرحمٰن کا دفعہ 164 کے تحت اعترافی بیان ریکارڈ کرانے کے لیے انہیں عدالت میں پیش کیا تو ملزم نے کمرۂ عدالت میں اعتراف جرم سے انکار کیا اور کہا کہ پولیس دباؤ میں لا کر اعترافی بیان لینا چاہتی ہے۔

جوڈیشل مجسٹریٹ شاہد کھوکھر کے روبرو ملزم نے اپنے بیان میں کہا کہ اُن کے خلاف مدرسے کی انتظامیہ نے سازش کی ہے جب کہ پولیس نے اپنے بیان میں کہا کہ ملزم سے تفتیش مکمل ہو چکی ہے اس لیے ملزم کا مزید جسمانی ریمانڈ نہیں چاہیے۔

پاکستانی قوانین کے مطابق بدفعلی، جنسی زیادتی اور ایسے دیگر کیس فوجداری مقدمات میں آتے ہیں۔ مبصرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ایسے بیشتر کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور جو ہوتے ہیں اُن میں یا تو فریقین میں صلح ہو جاتی ہے یا طویل عدالتی کارروائی کے باعث ملزمان بری ہو جاتے ہیں۔

SEE ALSO: لاہور: طالب علم سے مبینہ زیادتی، ملزم عزیز الرحمٰن کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کی ہدایت

فوجداری مقدمات کے ماہرِ قانون محمد شفیق بلوچ کہتے ہیں کہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 377 کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید اور جرمانہ یا یہ دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ ان کے بقول اس دفعہ کے تحت کم سے کم سزا سات سال سے دس سال قید اور جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

اسی طرح دفعہ 506 کے تحت ملزم کو زیادہ سے زیادہ سزا دو سال اور جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

شفیق بلوچ کہتے ہیں دفعہ 506 کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا سات سال قید اور جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے شفیق بلوچ نے بتایا کہ دفعہ 377 کے تحت اگر کوئی بالغ فرد کسی بالغ شخص کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا ہے تو زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید جب کہ دفعہ کے تحت نابالغ لڑکے کے ساتھ بد فعلی کی سزا پھانسی ہے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ایسے کیسز کا بنیادی تعلق فریقین کی معاشی حالت سے ہے۔

ان کے بقول، "جنسی زیادتی کے کیس زیادہ تر غریب بچوں کے ساتھ ہوتے ہیں جن کے والدین اپنی غربت کی وجہ سے تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کر پاتے اور انہیں مدارس میں داخل کرا دیتے ہیں۔"

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حارث خلیق نے کہا کہ معاشی طور پر کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والے متاثرہ فریق کے پاس ملزم سے صلح کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا۔ ایسے کیسز میں ملزمان متاثرہ فریق کو پیسے دے دیتے ہیں۔ اُن کی رائے میں جب ایسے کیس ریاست کے خلاف جرم ہوں گے تو راضی نامے اور صلح ناموں کی بنیادی شقیں کارآمد نہیں رہیں گی۔

انہوں نے کہا کہ جنسی زیادتی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سزاؤں کا سخت ہونا کسی بھی جرم کو ختم نہیں کرتا بلکہ سزا کا یقینی ہونا جرم کو ختم کرتا ہے۔ اُن کی رائے میں ایسے جرائم کو ریاست کے خلاف جرم سمجھا جائے۔ جب بھی ایسے کیس رپورٹ ہوں تو اُن کے ملزمان کو بغیر سزا کے نہیں چھوڑنا چاہیے۔

ایڈووکیٹ ہائی کورٹ محمد شفیق بلوچ نے بتایا کہ پاکستانی قوانین کے مطابق اگر کوئی دو افراد یا پارٹیز اپنی مرضی کے ساتھ جنسی عمل کرتے ہیں تو ایسی صورت میں قانون میں کوئی واضح دفعہ موجود نہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

خیبر پختونخوا میں 'چائلڈ پروٹیکشن یونٹس' غیر فعال کیوں؟

شفیق بلوچ کہتے ہیں پاکستان کے قانون میں ہم جنس پرست مرد (گے) اور ہم جنس پرست خاتون (لیزبیئن) سے متعلق کوئی دفعہ موجود نہیں۔ ان کے بقول، اگر دو مرد یا دو خواتین اپنی مرضی سے جنسی فعل کر رہے ہیں تو قانون میں اس سے متعلق ایک لفظ بھی نہیں ہے۔

ماہرِ قانون کے مطابق مفتی عزیز الرحمٰن کے کیس کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو ویڈیو کا ہے جس میں بظاہر یوں لگتا ہے کہ متاثرہ شخص کی مرضی سے سب کچھ ہو رہا ہے اور ایسی صورت میں قانون کے مطابق سزا نہیں ہو گی۔

وکیل کے مطابق کیس کا دوسرا پہلو پولیس مقدمے کا ہے۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق متاثرہ شخص کا مؤقف ہے کہ اُسے بلیک میل کیا گیا تھا۔ ایسی صورت میں دفعہ 377 موجود ہے۔

'دیکھنا یہ ہے کہ جنسی فعل میں کہیں فریقین کی رضامندی تو شامل نہیں'

ایڈووکیٹ شفیق بلوچ نے بتایا کہ جنسی زیادتی کے کیسز میں عموماً عدالتی کارروائی تین سے پانچ سال پر محیط ہوتی ہے۔ اگر کوئی خاص کیس ہو تو اُس کی عدالتی کارروائی جلد بھی مکمل ہو جاتی ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایسا سننے میں آیا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے مذکورہ کیس کو جلد نمٹانے کا کہا ہے، جس کے بعد اُمید ہے کہ اس کیس کی کارروائی چھ ماہ میں مکمل ہو جائے گی۔

شفیق بلوچ کے بقول مدرسہ طالب علم زیادتی کیس کی ویڈیو کو ملزم مفتی عزیز الرحمٰن نے درست تسلیم کیا ہے لیکن اُس کے مواد پر اعتراض اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ بدفعلی کے وقت اُنہیں نشہ دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے کیسز میں ملزم اور متاثرہ شخص کی طبی رپورٹ خاص اہمیت رکھتی ہے لیکن مذکورہ کیس چوں کہ پرانا ہے اِس لیے اِس کیس میں طبی رپورٹ (میڈیکل رپورٹ) کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔

شفیق بلوچ کے مطابق اس کیس میں تمام دستاویزی شہادتوں اور ثبوتوں کو سامنے رکھا جائے گا اور خاص طور پر اس میں ویڈیو اہمیت رکھتی ہے۔ ان کے بقول ویڈیو سے متعلق ملزم نے کوئی انکار نہیں کیا اور نا ہی ایسا کہا ہے کہ یہ خود ساختہ ہے۔

ایڈووکیٹ محمد شفیق بلوچ نے کہا کہ اِس کیس میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر جنسی عمل کی ویڈیو دونوں افراد کی مرضی سے بنائی گئی ہے تو ایسی صورت میں جرم کا مرتکب وہ شخص ہے جس نے اس ویڈیو کو پھیلایا ہے، کیوں کہ، ان کے بقول، ایسی صورت میں کسی کی ذاتی زندگی کو منظرِ عام پر لایا گیا ہے اور ایسا سائبر کرائم کے جرم میں آتا ہے۔

SEE ALSO: بچوں کی نازیبا ویڈیوز کا کاروبار کرنے والے مجرم کی ضمانت منسوخ

سیکرٹری جنرل ایچ آر سی کہتے ہیں صاف اور شفاف عدالتی کارروائی ہر ایک کا حق ہے۔ ایک سنجیدہ عدالتی کارروائی کے بعد کوئی بھی شخص کسی بھی جرم کا مرتکب ہو اُس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'ساحل' کے مطابق پاکستان میں روزانہ آٹھ بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس میں 49 فی صد لڑکے اور 51 فی صد لڑکیاں شامل ہوتی ہیں۔

ساحل کی سال 19-2020 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے چاروں صوبوں، وفاقی دارالحکومت، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں بچوں کے خلاف 2960 بڑے جرائم رپورٹ ہوئے جن میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، اغوا، لاپتا بچے اور بچپن میں شادیوں جیسے جرائم شامل ہیں۔

ساحل نے 2020 کی رپورٹ رواں برس اپریل میں جاری کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2019 کے مقابلے میں 2020 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز کی شرح میں چار فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ساحل کی رپورٹ کے مطابق بچوں کے ساتھ زیادتی کے رپورٹ ہونے والے کیسز میں 985 کیس جنسی زیادتی، 787 ریپ، 89 غیر اخلاقی تصاویر (پورنو گرافی) اور 80 دیگر کیسز تھے۔