پومپیو اور ایسپر کی صدر غنی سے ملاقات، مجوزہ طالبان سجھوتے پر غور

میونخ میں امریکی عہدے داروں اور افغان صدر کے درمیان ملاقات کا ایک منظر۔ 14 فروری 2020

ایسے میں جب امریکہ اور طالبان کے مابین سمجھوتے کے آثار نمایاں ہیں، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر دفاع مارک ایسپر نے جمعے کے روز میونخ میں افغانستان کے صدر اشرف غنی سے ملاقات کی۔

ان کی یہ ملاقات ’انٹرنیشنل سیکیورٹی فورم‘ کے اجلاس کے احاطے سے باہر ہوئی، جس کے متعلق اہل کاروں نے بتایا ہے کہ ’’تشدد کی کارروائیوں میں کمی‘‘ لانے پر مبنی اس سمجھوتے کا متن اس وقت مذاکرات کی میز پر موجود ہے، اور بعید نہیں کہ اس کا اعلان اختتام ہفتہ کر دیا جائے۔

امریکی حکام کے مطابق، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اصولی طور پر معاہدے پر اتفاق کیا ہے، جس کے نتیجے میں افغانستان سے خاصی تعداد میں امریکی فوج کے انخلا کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔

حالیہ دنوں میں، قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان اجلاس میں مجوزہ سمجھوتے کی حتمی تفصیلات کو آخری شکل دی گئی ہے۔

خلیل زاد اس وقت میونخ میں ہیں، جہاں وہ آج پومپیو اور ایسپر کی صدر اشرف غنی سے ملاقات کے دوران موجود تھے، جس میں افغانستان میں امریکی قیادت والی بین الاقوامی افواج کے کمانڈر، جنرل اسکوٹ مِلر بھی شریک تھے۔

منصوبے کے خاکے سے آشنا افراد کا کہنا ہے کہ اس میں ہفتے بھر کے لیے جنگ بندی پر کامیاب عمل درآمد کا طریقہ کار طے کیا گیا ہے، جس کے بعد 10 روز کے اندر اندر بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہو گا، جس میں ملک کے سیاسی مستقبل کا نظام الاوقات تیار کیا جائے گا۔

امریکی حکام نے ان دعوؤں کو مسترد کیا ہے کہ یہ پیش رفت طالبان کے الٹی میٹم کا نتیجہ ہے۔

انھوں نے اس جانب توجہ دلائی کہ باوجود اس بات کے کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ افغانستان اور دیگر ملکوں سے امریکی افواج کو واپس بلایا جائے گا، ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر نے گذشتہ معاہدوں پر عمل نہیں کیا۔ اس کا سبب امریکی فوج پر ہونے والے حملے تھے، جب کیے گئے عہد پر عمل درآمد قریب تر تھا۔