افغانستان میں حکومت اور ایک مسلح تنظیم "حزب اسلامی" کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں جس کے بعد اس گروپ کے سربراہ گلبدین حکمت یار کو ان کے ماضی سے قطع نظر ملکی سیاست میں آنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
جمعرات کو کابل میں دستخط کی تقریب براہ راست ٹیلی ویژن پر نشر کی گئی۔ اس معاہدے کے تحت گلبدین حکمت یار کی تنظیم حزب اسلامی کو ملک میں مکمل سیاسی حقوق حاصل ہو سکیں گے۔
معاہدے پر حکومت اور حزب اسلامی کے نمائندوں نے دستخط کیے اور توقع ہے کہ جلد ہی اس پر افغان صدر اشرف غنی اور گلبدین حکمت یار بھی دستخط کر دیں گے۔
گلبدین حکمت یار افغانستان کے سابق وزیراعظم اور ایک وقت میں روس کے خلاف مجاہدین کے سرکردہ رہنما رہے ہیں جن کے نمائندوں کی افغان اعلیٰ امن کونسل کے ساتھ ایک عرصے سے بات چیت جاری تھی۔
رواں ماہ ہی صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ حزب اسلامی کے ساتھ معاہدہ طے پانے والا ہے اور اس پیش رفت افغانستان میں کئی دہائیوں سے جاری شورش کے خاتمے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
صدر غنی نے ملک میں قیام امن کے لیے تمام گروہوں کو مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دی تھی لیکن طالبان کی طرف سے اس پر کوئی مثبت جواب سامنے نہیں آیا۔
پاکستان کی طرف سے اس معاہدے پر تاحال کوئی ردعمل تو سامنے نہیں آیا لیکن افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے سابق سیکرٹری اور دفاعی امور کے تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان کے خیال میں اس معاہدے کے حقیقی طور پر افغانستان کی صورتحال پر قابل ذکر اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔
"افغان حکومت یہ دکھانا چاہتی ہے کہ وہ کچھ کر رہی ہے، طالبان سے تو مذاکرات ہو نہیں رہے ہیں تو میرے خیال میں ایک نام کے لیے کہ ہمارا ان کے ساتھ (معاہدہ) ہو گیا ہے۔"
گلبدین حکمت یار کو امریکہ 2003ء میں دہشت گردوں کی عالمی فہرست میں شامل کر چکا ہے جب کہ اسی سال اقوام متحدہ نے انھیں بلیک لسٹ بھی کر دیا تھا۔ ان کی تنظیم سے معاہدے پر بعض حکومتی حلقوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
جمعرات کو کابل میں اس معاہدے کے خلاف مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے جس میں شریک لوگ یہ نعرہ بلند کر رہے تھے کہ وہ نہ تو معاف کریں گے اور نہ ہی فراموش۔
بتایا جاتا ہے کہ 1992 سے 1996ء میں افغانستان کی خانہ جنگی کے دوران گلبدین حکمت یار کے گروپ نے ہزاروں افغانوں کو قتل کیا۔ وہ ایک عرصے سے ملک سے باہر ہیں جب کہ ان کے گروپ کی طرف سے ایک عرصے سے تشدد پر مبنی کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔
انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم "ہیومن رائٹس واچ" نے گزشتہ ماہ ہی یہ کہا تھا کہ "(گلبدین حکمت یار کی واپسی) سے افغانستان میں جرائم سے استثیٰ کی ایک روایت جنم لے سکتی ہے۔"
امریکہ یہ کہہ چکا ہے کہ وہ افغان حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان بات چیت میں شامل نہیں رہا ہے لیکن وہ امن معاہدے کا خیرمقدم کرے گا۔