امریکہ نے کرونا ویکیسین کے 'پیٹنٹ' یعنی جملہ حقوق ختم کرنے کی حمایت کی ہے۔
امریکہ کی نمائندہ برائے تجارت کیتھرین ٹائی نے اپنے ایک بیان میں بائیڈن انتظامیہ کے اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی وبا ایک غیر معمولی صورتِ حال ہے اور ان حالات میں غیر معمولی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن کی انتظامیہ انٹیلیکچوئل پراپرٹی کے حقوق کے تحفظ کی علم بردار ہے۔ لیکن اس عالمی وبا کے خاتمے کے لیے اس سے دست بردار ہونے کے حق میں ہے۔
اگر ویکسین کے جملہ حقوق ختم کر دیے جاتے ہیں تو اس کے ویکسین کی دستیابی پر کیا اثرات ہوں گے؟ کیا ویکسین سستے داموں مل سکے گی؟ اور کیا اس سے ویکسین کی پیداوار میں اضافہ ہو سکے گا؟ اس حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔
پیٹنٹ ہوتا کیا ہے؟
کوئی بھی نئی ایجاد جو چاہے کوئی مشین ہو، پرزہ ہو، کسی مصنوعات کی صورت میں ہو یا کسی کام کو کرنے کا نیا تیکنیکی طریقہ فراہم کرتی ہو، اس کے خصوصی حقوق ہوتے ہیں۔
ان حقوق کو پیٹنٹ کہا جاتا ہے۔ یہ دواؤں پر بھی لاگو ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ویکسین بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ کسی ملک میں جاری کردہ پیٹنٹ وہاں کے لیے مخصوص بھی ہوسکتے ہیں تاہم ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے قواعد کے مطابق اس کے رکن ممالک جاری کردہ پیٹنٹ پر عمل درآمد کے پابند ہوتے ہیں۔
کرونا وائرس کی وبا سامنے آنے کے بعد دنیا بھر میں دوا ساز کمپنیوں اور طبی تحقیقی اداروں نے اس کی ویکسین تیار کرنے کا کام شروع کیا جس میں متعدد اداروں کو کامیابی ملی۔
اس وقت صرف دوا ساز کمپنیاں اپنی متعارف کرائی گئی ویکسینز کا پیٹنٹ رکھتی ہیں۔ یعنی صرف وہی کمپنیاں اپنے فارمولے یا خاص ترکیب سے کرونا وائرس کی ویکسین تیار کر سکتی ہیں جن کے نام پر اس کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔
SEE ALSO: امریکہ نے کرونا ویکسین کے 'پیٹنٹ' ختم کرنے کی حمایت کر دیخیال رہے کہ کرونا ویکسین کی تیاری اور اس کی فروخت کے لیے چند مخصوص کمپنیاں ہی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں رجسٹرڈ ہیں اور انہی کے پاس یہ لائسنس ہے کہ وہ اسے تیار اور فروخت کر سکتی ہیں۔
پیٹنٹ ختم کرنے کا مطالبہ کیوں؟
گزشتہ برس اکتوبر میں بھارت اور جنوبی افریقہ نے عالمی ادارۂ تجارت (ڈبلیو ٹی او) میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ کرونا کی وبا کے دوران ایسٹرازنیکا اور فائزر کی ویکسین سے پیٹنٹ کی پابندی ختم کی جائے اور ان کے فارمولے کا تبادلہ کیا جائے۔ اس طرح مختلف ممالک میں مقامی سطح پر ویکسین کی تیاری ممکن ہو جائے گی۔
تجویز میں اس مطالبے کے لیے یہ دلیل پیش کی گئی تھی کہ یہ پیٹنٹ ختم کرنے سے غریب ممالک کے لیے کرونا ویکسین زیادہ قابلِ خرید ہو جائے گی اور انہیں باآسانی اس کی خوراکیں حاصل ہو سکیں گی۔
اس تجویز کی 100 ممالک نے حمایت کی جن میں زیادہ تر کم آمدن رکھنے والے یا غریب ممالک شامل ہیں۔ تجویز کے حامی ممالک میں چین اور پاکستان بھی شامل ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہینم نے بھی رواں سال مارچ میں اپنی ایک پریس بریفنگ میں زور دیا تھا کہ کرونا کی عالمی وبا ختم ہونے تک ویکسین پر حقوقِ دانش یا انٹلیکچول پراپرٹی کی پابندی ختم کی جائے اور ڈبلیو ٹی او کے ضوابط میں ہنگامی حالات کے لیے اس کی گنجائش موجود ہے۔
امریکہ سمیت دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور سماجی کارکنان نے اس تجویز کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی ہے۔ امریکی ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی سمیت ایوان کے 100 ارکان، دنیا بھر سے 60 سابق سربراہانِ مملکت اور تقریباً 100 نوبیل انعام یافتہ افراد اور گروپس نے بھی اس تجویز کی حمایت کی ہے۔
تجویز کی مخالفت کیوں؟
البتہ برطانیہ اور جرمنی سمیت کئی یورپی ممالک اور فارماسوٹیکل کمپنیوں کی جانب سے اس تجویز کی مخالفت کی گئی ہے۔ مخالفت کرنے والی کمپنیوں میں امریکی دوا ساز 'فائزر' اور 'موڈرنا' بھی شامل ہیں۔
گزشتہ روز جرمنی نے بھی صدر جو بائیڈن کی تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے یہی مؤقف اختیار کیا ہے کہ انٹلیکچوئل پراپرٹی کے حقوق کے بجائے صلاحیتوں میں اضافہ اور معیار کو یقینی بنانا ویکیسن کی عام فراہمی میں اصل رکاوٹیں ہیں۔
پیٹنٹ ختم ہونے سے کیا ہوگا؟
امریکہ کی جانب سے پیٹنٹ ختم کرنے کی تجویز کی حمایت کے بعد اس حوالے سے حتمی فیصلہ عالمی ادارۂ تجارت کے ارکان ممالک ہی کریں گے۔ لیکن اگر یہ تجویز منظور ہو جاتی ہے تو اس کی حمایت کرنے والے حلقے کا خیال ہے کہ اس سے ویکسین کی کم قیمت پر فراہمی کے امکانات پیدا ہوں گے اور ویکسین کی پیداوار بھی بڑھے گی۔
دوسری جانب 'رائٹرز' کے مطابق ادویات کے لیے ساز و سامان کی فراہمی کے شعبے کے ماہر پرشانت یادو کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے پیٹنٹ کے خاتمے کی حمایت سے بڑھ کر اس شعبے میں صلاحیت کار بڑھانے کے لیے فنڈنگ اور ٹیکنالوجی کی تبادلے کے لیے اقدامات زیادہ اہم ہیں۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پیٹنٹ ختم کرنے سے یہ تو ہو گا کہ آپ ویکسین کا فارمولا فراہم کر دیں گے۔ لیکن اس کی تیاری میں استعمال ہونے والی اشیا اور خام مال کی فراہمی اور ٹیکنالوجی کے بغیر ایسا کرنا کتنا مددگار ہو سکتا ہے؟ یہ ابھی ایک سوالیہ نشان ہے۔