پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سینیٹ سے مسترد شدہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے متعلقہ قانون سازی سمیت آٹھ قانونی بل اور ترامیم منظور کر لی گئیں۔
مشترکہ ایوان میں عددی اکثریت رکھنے کے باوجود حزب اختلاف کی تمام ترامیم مسترد کر دی گئیں۔
وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ حزب اختلاف نے ذاتی مفادات کے لیے ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون سازی پر بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ بدعنوانی کے علاوہ ہر معاملے پر سمجھوتہ کرنے کو تیار ہیں۔
حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ووٹنگ کے عمل میں رد و بدل کیا گیا ہے۔
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین پر مشتمل ہوتا ہے اور حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی ایک ایوان سے مسترد ہونے کی صورت میں مشترکہ ایوان سے قانون سازی کرا سکتی ہے۔
حکومت نے حزبِ اختلاف کی اکثریت والے ایوان بالا سے مسترد قانونی بل کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا تھا۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کل آٹھ بل منظور کر لیے گئے جن میں اسلام آباد متروکہ وقف املاک بل 2020، انسداد منی لانڈرنگ دوسرا ترمیمی بل 2020، سروے اینڈ میپنگ ترمیمی بل 2020، پاکستان میڈیکل کمشن بل 2020، پاکستان میڈیکل ٹریبونل بل 2020 اور انسداد دہشت گردی بل 2020 شامل ہیں۔
معذور افراد کے حقوق کا بل 2020 اور اسلام آباد ہائی کورٹ ترمیمی بل 2020 بھی کثرت رائے سے منظور کر لیے گئے۔
حزبِ اختلاف کی اکثریت اقلیت میں تبدیل
عددی اعتبار سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حزبِ اختلاف کے حکومت سے دس اراکین زیادہ ہیں۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومتی ارکان کی مجموعی تعداد 216 ہے جن میں سے 200 اجلاس میں شریک جب کہ 16 غیر حاضر تھے۔
مشترکہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن ارکان کی مجموعی تعداد 226 ہے جن میں سے 190 ارکان نے مشترکہ اجلاس میں شرکت کی اور 36 غیر حاضر رہے۔
ان 36 ارکان کی غیر حاضری کی وجہ سے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کی عددی اکثریت اقلیت میں بدل گئی اور حکومت نے سینیٹ سے مسترد شدہ بل سمیت آٹھ قانونی بل منظور کرا لیے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما آغا رفیع اللہ کا کہنا ہے کہ حزبِ اختلاف کے اراکین پارلیمنٹ کو مشترکہ اجلاس میں شرکت سے روکنے کے لیے نامعلوم فون کالز موصول ہوئی ہیں۔
نیوز ون ٹی وی کے حالات حاضرہ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ فون کال موصول ہونے کا یہ معاملہ اراکین نے پارٹی قیادت کے سامنے رکھا ہے۔
تحریکِ عدم اعتماد کے علاوہ کوئی راستہ نہیں
اسپیکر کی جانب سے بل کی منظوری کے طریقہ کار پر اعتراض کو تسلیم نہ کیے جانے اور حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کو ان بلوں پر اپنے اعتراضات بیان کرنے کی اجازت نہ دینے پر اپوزیشن جماعتوں نے ایوان سے واک آوٹ کیا۔
حزبِ اختلاف کے واک آؤٹ کے بعد حکومت نے با آسانی مشترکہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل چار بلوں کے علاوہ ضمنی ایجنڈے کے ذریعے چار مزید بلز بھی منظور کر لیے۔
وزیر اعظم عمران خان نے بلز کی منظوری کے بعد ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ کا مسئلہ وراثت میں ملا اور بلیک لسٹ میں جانے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان پر پابندیاں عائد ہو جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ مشکل معاشی حالات میں پاکستان پابندیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا جب کہ اپوزیشن ذاتی مفادات کے لیے ملکی مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو اور دیگر رہنماؤں نے بھی اپوزیشن لیڈر کے چیمبر میں صحافیوں سے گفتگو کی اور اس دن کو پارلیمانی تاریخ کا سیاہ دن قرار دیا۔
شہباز شریف کہتے ہیں کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں اسپیکر اور حکومت کے اس طرز عمل پر کل جماعتی کانفرنس میں بات کریں گی۔
پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ انہیں شک ہے کہ اسپیکر نے ووٹوں کی گنتی میں مشیروں کو شامل کر کے رد وبدل کیا ہے وگرنہ حزب اختلاف کی دوبارہ گنتی کے مطالبے کو نظر انداز نہ کیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ ایوان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے جس پر وہ کل جماعتی کانفرنس میں اتفاق رائے کی کوشش کریں گے۔
'پارلیمانی فورم غیر موثر ہو تو سڑکوں پہ احتجاج ہی راستہ ہوتا ہے'
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر حکومت و حزب اختلاف کی محاذ آرائی سے قانون سازی کے پارلیمانی طریقہ کار اور رائج اقدار نظر انداز ہو رہی ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اپوزیشن کی جماعتیں تقسیم اور باہمی عدم اعتماد کا شکار ہیں جس کے باعث عددی اکثریت ہوتے ہوئے بھی وہ حکومتی اقدامات کو روکنے میں ناکام ہیں۔
پارلیمانی امور کے صحافی و تجزیہ نگار فاروق اقدس کہتے ہیں کہ اپوزيشن پارلیمنٹ میں ہونے والے اس معاملے پر پریشان ہے اور اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر مشاورت کی جا رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے قواعد و ضوابط کے حوالے سے جائز اعتراضات سنے جاتے ہیں نہ انہیں بات کرنے کی اجازت دی جاتی ہے تو ایسے میں قواعد و ضوابط، جمہوری روایات اور پارلیمانی جمہوریت کی پاسداری برائے نام ہی رہ جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے یہ رویہ اس لیے بھی ہے کہ حزبِ اختلاف مشترکہ حکمت عملی اور باہمی اعتماد کے فقدان کا شکار ہے اور یہ دوسری مرتبہ ہے کہ ایوان میں عددی اکثریت رکھنے کے باوجود حکومت نے حزبِ اختلاف کو شکست دی۔
فاروق اقدس کہتے ہیں کہ جب سب سے بڑا پارلیمانی فورم غیر موثر ہو کر رہ جائے تو سیاسی جماعتوں کے پاس سڑکوں پر احتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا لیکن ان کے بقول یہ اسی صورت ہو سکے گا جب حزب اختلاف کی جماعتیں یگانگت و اتحاد کا مظاہرہ کریں گی۔ بصورت دیگر صورت حال یوں ہی رہے گی اور پارلیمنٹ بے توقیر ہوتی رہے گی۔
خیال رہے کہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے 20 ستمبر کو اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس بلا رکھی ہے جس میں وہ حکومت مخالف مشترکہ حکمت عملی پر مشاورت کریں گے۔