فرانسیسی صدر امانوئیل میکخواں نے اتوار کے روز اپنے وزیر اعظم کو حکم دیا ہے کہ وہ سیاسی رہنمائوں اور مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کریں، ایسے میں جب اُن کی کوشش ہے کہ ملک بھر میں چھڑنے والی احتجاجی لہر کو روکا جائے، جس سے قبل توڑ پھوڑ کرنے والوں نے وسطی پیرس کو لڑائی کا میدان بنا دیا تھا۔
فسادات سے نبردآزما ہونے پر مامور پولیس ہفتے کے روز اُس وقت بے بس دکھائی دی جب احتجاج کرنے والے مظاہرین نے پیرس کے متمول مضافات میں من مانی کرتے ہوئے درجنوں موٹر گاڑیوں کو نذر آتش کیا، ملبوسات کی دکانوں کو لوٹا، پُرتعیش نجی رہاہش گاہوں اور ہوٹلوں کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا۔ سال 1968 سے اب تک دارالحکومت میں ہونے والی یہ بدترین ہنگامہ آرائی ہے۔
یہ بدامنی پیٹرول کی مصنوعات میں اضافے پر بھڑک اٹھی۔ لیکن یہ بڑہتی چلی گئی۔ یہ میکخواں کی صدارت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن کر نمودار ہوئی ہے۔ یہ اُن کی معاشی اصلاحات کے خلاف عوامی ردعمل ہے جو سخت برہمی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
یوں لگتا ہے کہ 40 برس کے ملکی سربراہ اس کے لیے تیار نہیں تھے، اور اب حالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اتوار کے روز اپنی حکومت کے ارکان کے ساتھ اجلاس کے بعد، فرانسیسی صدارت نے ایک بیان جاری کیا جس میں بتایا گیا ہے کہ صدر نے اپنے وزیر داخلہ سے کہا ہے کہ سلامتی افواج کو تیار رکھیں، تاکہ مزید احتجاج کی صورت میں حالات کا مقابلہ کیا جاسکے، جب کہ اُنھوں نے اپنے وزیر اعظم سے کہا ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور احتجاج کرنے والوں کے نمائندوں سے مذاکرات کریں۔
ایک فرانسیسی صدارتی ذریعے نے بتایا ہے کہ مظاہرین کو فوری رعایتیں دینے کی پیش کش کے مشورے کے باوجود، میکخواں اتوار کے روز قوم سے خطاب نہیں کر پائے، اور بتایا گیا ہے کہ ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ پر کوئی بات نہیں ہوئی۔