عراق میں ایک امریکی شہری کو کرد فورسز نے تحویل میں لیا ہے جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ مشتبہ طور پر داعش کا جنگجو ہے۔
اس کی شناخت 26 سالہ محمد جمال قوی کے طور پر کی گئی ہے جو امریکی ریاست ورجینیا کے علاقے الیگزینڈریا سے تعلق رکھتا ہے۔
پیر کو اس کے گھر پر وائس آف امریکہ کے نامہ نگار اور کیمرہ مین پہنچے اور اس کے اہل خانہ سے بات کی۔
مشتبہ جنجگو کے والدین کو ایسی خبر دی گئی جو ان کے لیے بالکل غیر متوقع تھی کہ ان کا بیٹا شدت پسند گروپ داعش کا رکن تھا اور اس نے عراق میں خود کو کرد فورسز کے حوالے کیا۔
خود کو جمال کی والدہ کے طور پر متعارف کروانے والی خاتون کا کہنا تھا کہ "ہمیں یہ معلوم ہے کہ وہ کینیڈا میں تھا اور ہمیں بھی معلوم ہے وہ ترکی کا سفر کرتا رہا ہے۔"
لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان کی اپنے بیٹے سے ایک عرصے سے بات نہیں ہوئی اور انھیں اندازہ نہیں کہ وہ عراق میں تھا یا شدت پسند گروپوں سے اس کا کوئی تعلق تھا۔
یہ خاندان 1988ء میں فلسطین سے امریکہ منتقل ہوا تھا۔
جب اہل خانہ کو کردوں کے زیر تحویل جمال کی تصویر دکھائی گئی تو ان کا کہنا تھا وہ وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ وہی ہے۔
جمال کے بھائی تامر قوی نے کہا ہے کہ "تصویر میں نظر آنے والا شخص میرا بھائی نہیں،" جب کہ والدہ نے کہا کہ "مشابہت ہے، لیکن میں تصدیق نہیں کر سکتی کیونکہ تصویر واضح نہیں۔"
کرد فورس "پیش مرگہ" کے عراق میں ایک کمانڈر سرباز حما امین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کی فورسز نے پیر کو شمالی عراق میں سنجار کے قریب کوئی مشکوک سرگرمی دیکھی تو اس پر فائرنگ کی۔
" وہ چیز کہیں چھپ گئی لیکن پیش مرگہ اسے تلاش کرتے رہے۔ صبح پانچ بجے جب تھوڑی روشنی ہوئی تو وہ ایک مشکوک شخص تھا جو چلا رہا تھا اور اس نے ہمیں انگلش میں کہا کہ میں کس سے بات کر سکتا ہوں؟ میں باہر آنا چاہتا ہوں۔"
امین کے بقول پیش مرگہ کو انگلش کی سمجھ نہیں آئی تو اس شخص نے شکستہ عربی میں پوچھا کہ "کوئی انگلش بول سکتا ہے۔ پیش مرگہ نے اس یقین دہانی کے بعد کہ اس شخص کے پاس کوئی بارودی مواد تو نہیں، اسے تحویل میں لیا اور اسے کیمپ میں لے کر آئے جہاں اس نے بتایا کہ وہ خود کو حوالے کرنا چاہتا ہے۔"
امین کے مطابق اس شخص نے بتایا کہ اس کے والد فلسطین سے تعلق رکھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کو بھیجے گئے ڈرائیونگ لائسنس میں اس شخص کی شںاخت ورجینیا سے تعلق رکھنے والے محمد جمال قوی کے طور پر کی گئی۔
امین نے بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ ممکنہ طور پر مشتبہ شخص داعش کے زیر تسلط علاقے تلعفر سے آیا ہو کیونکہ یہ پیش مرگہ کے اگلے محاذوں کے پاس واقع ہے۔ "اس کے پاس سے ترک کرنسی اور ڈالر، ویزا کارڈ اور ایک امریکی ڈرائیورز لائسنس ملا۔"
اسٹریٹیجک سکیورٹی انٹیلی جنس کے ایک گروپ سوفان سے وابستہ پیٹرک سکنر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ "بظاہر یہ لگتا ہے کہ ترکی سے شام میں داخلہ بہت ہی آسان ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا کتنا مشکل ہے اور یہ تعین کرنا کہ ان میں کون فرار ہو رہا ہے اور کون معمول کی نقل و حرکت میں ہے۔"
جمال کے والد کے مطابق انھوں نے امریکی محکمہ خارجہ سے رابطہ کیا ہے کہ لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا۔
محکمہ خارجہ کے حکام کے مطابق انھیں ان خبروں کا علم ہے کہ داعش کے ساتھ مل کر مبینہ طور پر لڑنے والے ایک امریکی شہری کو عراق میں پیش مرگہ نے گرفتار کیا ہے۔ "ہم اس کی تصدیق کے لیے عراقی اور کرد حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔"