مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں نے منگل کو ’یوم غضب‘ منایا، جس میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔ اس دوران کچھ گروہوں کی اسرائیلی افواج سے جھڑپیں ہوئیں۔
مظاہرین اس اعلان پر احتجاج کر رہے تھے کہ امریکہ اب اس بات میں یقین نہیں رکھتا کہ اسرائیلی بستیاں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔
دوپہر کے وقت مغربی کنارے کے شہر رملہ میں تقریباً 2000 فلسطینی اکٹھے ہوئے جہاں انھوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تصویری پوسٹروں کے علاوہ اسرائیلی اور امریکی جھنڈے نذر آتش کیے۔
اسکول، یونیورسٹیاں اور سرکاری دفاتر بند کر دیے گئے تھے جب کہ مغربی کنارے کے دیگر شہروں میں بھی ریلیاں نکالی گئیں۔
رملہ میں تقریر کرتے ہوئے فلسطینی صدر محمود عباس کی ’فتح تحریک‘ کے ایک اہلکار، محمود علول نے کہا کہ ’’اسرائیل کی جانب جھکاؤ پر مبنی امریکی پالیسی، اور امریکہ کی یہودی بستیوں اور اسرائیلی قبضے کی حمایت نے ہمارے آپشن محدود کر دیے ہیں: یعنی یہ کہ ہم پھر سے مزاحمت کا راستہ اختیار کریں۔‘‘
مظاہرین نے پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا: ’’ٹرمپ کا مواخذہ ہو رہا ہے (اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن) نیتن یاہو جیل جا رہے ہیں، قبضہ ختم ہوگا اور ہم اپنی سرزمین پر ہی رہیں گے۔‘‘
رملہ کے قریب بیت اللحم اور الخلیل پر قائم فوجی چوکیوں پر احتجاج کرنے والوں نے اسرائیلی افواج پر پتھر پھینکے، جس کا جواب آنسو گیس کے گولوں سے دیا گیا۔ کتنے افراد زخمی ہوئے، فوری طور پر اس بارے میں کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
یہ احتجاجی مظاہرے اسرائیل کے زیر حراست ایک فلسطینی قیدی کی ہلاکت کے چند گھنٹوں بعد شروع ہوگئے تھے، جسے سرطان کا عارضہ لاحق تھا۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ مظاہروں میں 35 برس کے سمیع ابو دائک کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ اسرائیلی حکام نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔
’یوم غضب‘ کا انعقاد فتح تحریک نے کیا تھا، جس میں گزشتہ ہفتے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اسرائیلی بستیوں کے معاملے پر سامنے آنے والے بیان پر احتجاج کیا گیا۔
اس فیصلے کے نتیجے میں چار عشروں سے جاری امریکی پالیسی تبدیل کر دی گئی ہے اور اس میں فلسطین کی جانب سے ریاست کے حصول کی جگہ سخت گیر اسرائیلی مؤقف کو درست قرار دیا گیا ہے۔
ادھر، اسرائیلی رہنماؤں نے اس امریکی فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ فلسطینی اور دنیا کے زیادہ تر ملک اسی مؤقف کے ہیں کہ یہ بستیاں غیر قانونی ہیں اور انھیں ماننے کا مطلب ’دو ریاستی حل‘ کی امیدوں پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے، کیونکہ وہ زمین جو ریاست کے قیام کے لیے فلسطینیوں کو درکار ہے اس پر قبضہ ہو چکا ہوگا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ بستیوں کے مستقبل کا معاملہ مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے، باوجود اس بات کے کہ وہ رفتہ رفتہ بستیوں میں وسعت لاتا جا رہا ہے۔
اسرائیل نے 1967ء کی مشرق وسطیٰ کی لڑائی کے دوران مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا، جس کے فوری بعد اسرائیل نے نئے حاصل کردہ علاقے پر بستیاں تعمیر کرنا شروع کر دی تھیں۔ ان دو علاقوں میں اب تقریباً 700000 اسرائیلی مقیم ہیں۔
گزشتہ ہفتے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ امریکہ نے محکمہ خارجہ کی جانب سے 1978ء میں دیے گئے قانونی مشورے سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔