|
ویب ڈیسک _ غزہ کے محکمۂ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ہفتے کو وسطی غزہ میں قائم پناہ گزین کیمپوں پر اسرائیلی فورسز نے تین فضائی حملے کیے جس کے نتیجے میں کم از کم 13 فلسطینی ہلاک ہو گئے ہیں۔
نصیرات اور بریج پناہ گزین کیمپوں پر ہونے والے فضائی حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں تین بچے اور ایک خاتون بھی شامل ہے۔ یہ تازہ حملے ایک ایسے موقع پر ہوئے ہیں جب قاہرہ میں جنگ بندی سے متعلق مذاکرات میں پیش رفت کی اطلاعات ہیں۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' نے فلسطینی ایمبولینس ٹیموں کے حوالے سے بتایا ہے کہ انہوں نے 13 لاشیں الاقصیٰ شہدا اسپتال میں پہنچائیں۔
جمعرات کے روز غزہ میں ایک ایسے بچے نے جنم لیا جس کی ماں نصیرات کیمپ میں اپنے گھر پر فضائی حملے میں ہلاک ہو گئی تھی۔
رپورٹس کے مطابق 25 سالہ حاملہ خاتون اولا الکرد فضائی حملے میں چھ دیگر افراد سمیت ماری گئی تھی۔ امدادی کارکنوں نے انہیں فوراً شمالی غزہ کے العودہ اسپتال پہنچایا، جہاں کئی گھنٹوں کے بعد ڈاکٹروں نے 'اے پی' کو بتایا کہ ایک بچے کی پیدائش ہوئی ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ نوزائیدہ بچے کا نام مالک یاسین رکھا گیا ہے جس کی حالت تسلی بخش ہے۔ تاہم اسے آکسیجن کی قلت کا سامنا ہے جس کی وجہ سے اسے انکیوبیٹر میں رکھا گیا ہے۔
اسرائیلی حملوں میں ہلاکتیں 39 ہزار تک پہنچ گئیں
جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے ردعمل میں نو ماہ سے زیادہ عرصہ سے جاری جنگ کے دوران فلسطینیوں کی ہلاکتیں 38900 سے بڑھ چکی ہیں۔
غزہ کی وزارتِ صحت ہلاکتوں کی تعداد جاری کرتے ہوئے یہ نہیں بتاتی کہ ان میں جنگجو اور عام شہریوں کی تعداد کیا ہے۔
تاہم اسرائیل یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی اکثریت جنگجوؤں کی ہے جب کہ حماس کا کہنا ہے کہ زیادہ ہلاکتیں خواتین اور بچوں کی ہوئی ہیں۔
SEE ALSO: غزہ شہر میں اسلامی جہاد کے دو کمانڈر ہلاک: اسرائیلی فورسزگزشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے میں اسرائیل کے مطابق 1200 افراد ہلاک اور تقریباً 250 یرغمال بنا لیے گئے تھے۔ جن میں سے 116 اب بھی غزہ میں حماس کی قید میں ہیں۔
اسرائیلی فورسز کا کہنا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق لگ بھگ 40 یرغمالی ہلاک ہو چکے ہیں۔
جنگ کے دوران غزہ کی زیادہ تر عمارتیں اور انفرااسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ جگہ جگہ ملبے کے ڈھیر ہیں۔ آبادی کا بڑا حصہ پناہ کی تلاش میں یہاں وہاں بھٹک رہا ہے۔ پانی، خوراک، ادویات اور زندگی کی بنیادی اشیا کی شدید قلت ہے۔
اقوامِ متحدہ اور امدادی ادارے متعدد بار یہ انتباہ کر چکے ہیں کہ غزہ قحط کے دھانے پر پہنچ رہا ہے۔
جنگ بندی مذاکرات جاری ہیں
امریکہ سمیت بین الاقوامی ثالت اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا ایک مرحلہ وار معاہدہ کرانے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے جنگ روکنے اور یرغمالوں کو واپس لانے میں مدد مل جائے گی۔
جنگ بندی کی کوششیں کئی مہینوں سے جاری ہیں اور دونوں فریق ایک دوسرے پر معاہدہ نہ ہونے کا الزام عائد کرتے آئے ہیں۔
SEE ALSO: حماس کےمذاکرات سےانکار کے بعدغزہ پر اسرائیل کےفضا، زمین اور سمندر سے حملےجمعے کے روز امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدہ حماس گروپ کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کو رہا کرانے میں مدد دے گا۔
اس سے قبل اسرائیل اور حماس کے درمیان نومبر میں ایک ہفتے کی جنگ بندی ہوئی تھی جس میں لگ بھگ 100 یرغمال، اسرائیلی جیلوں سے فلسطینی قیدیوں کے تبادلے میں رہا کیے گئے تھے۔
اس رپورٹ میں شامل کچھ معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔