صحافیوں کو درپیش خطرات سے متعلق عالمی فہرست میں پاکستان نویں نمبر پر

فائل فوٹو

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر رانا عظیم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ صحافیوں کو حکومت اور شدت پسندوں دونوں جانب سے ہراساں کیے جانے اور حملوں کا سامنا ہے۔

پاکستان میں صحافیوں کو اپنے کام کے دوران بہت سے خطرات کا سامنا رہتا ہے۔ بااثر افراد اور اداروں کے خلاف تحقیقی صحافت پر صحافیوں کو پہلے بھی دھمکیوں اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے مگر ملک کے مختلف علاقوں میں شورش اور دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں شروع ہونے کے بعد صحافیوں کے لیے غیر جانبدارانہ انداز میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔

نیو یارک میں قائم صحافیوں کے حقوق کی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے 2015 کے لیے گلوبل امپیونیٹی انڈیکس نامی ایک فہرست جاری کی ہے جس میں پاکستان کا نام بھی شامل ہے۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے کہا کہ پاکستان میں ایک صحافی ولی خان بابر کے قاتلوں کو سزا سنائے جانے کے بعد امید پیدا ہوئی تھی کہ ملک میں صحافیوں کے لیے نئی صبح کا آغاز ہو گا مگر اس پیشے سے وابستہ افراد کے خلاف تشدد کے دیگر واقعات نے اس امید کو معدوم کر دیا ہے۔ تنظیم نے سینیئر صحافی حامد میر پر حملے اور لاڑکانہ کے صحافی شان داہر کے قتل کا بھی ذکر کیا۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر رانا عظیم نے بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ صحافیوں کو حکومت اور شدت پسندوں دونوں جانب سے ہراساں کیے جانے اور حملوں کا سامنا ہے۔

’’پاکستان کے اندر ظلم کرنے والا اور دہشت گرد اس قدر مضبوط اور طاقتور ہے کہ پاکستان کی حکومت اور پاکستان کے ادارے اس کے آگے بالکل بے بس نظر آتے ہیں۔ صرف ولی خان بابر قتل کیس میں ایک شخص جو گرفتار ہوا، اس کو سزا ہوئی اور اس کے خلاف اپیل ہوئی مگر اس پر آج تک فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سات سال کے دوران ملک میں دہشت گردی بڑھنے سے صحافیوں پر حملوں کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ رانا عظیم نے بتایا کہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کو بھی طالبان کی طرف سے دھمکیوں کا سامنا ہے۔

’’ابھی میں نے اپنی ای میل چیک کی تو ہمیں ایک مراسلہ موصول ہوا جس میں افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کی طرف سے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس سے بھی یہ واضح کہا گیا کہ اب ہم ان تمام میڈیا ہاؤسز پر حملے کریں گے اور ان تمام صحافیوں کو بھی نشانہ بنائیں گے جو ہماری خبر کو منفی انداز میں چلائیں گے۔‘‘

2008 سے گلوبل امپیونیٹی انڈیکس شروع ہونے کے بعد سے اب تک ہر سال پاکستان کا نام اس فہرست میں شامل رہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے اور ان پر حملے کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے میں ناکام رہا ہے۔

اس فہرست میں ان 14 ممالک کے نام شامل ہیں جن میں پچھلے دس برس کے دوران کم از کم پانچ صحافیوں کے قتل کا معمہ حل نہ کیا جا سکا ہو۔ صومالیہ اس میں سرفہرست ہے جبکہ عراق، شام، سری لنکا، افغانستان، بنگلہ دیش اور بھارت کا نام بھی فہرست میں شامل ہے۔

پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے صحافیوں اور اس شعبے سے وابستہ افراد کی تحفظ کے لیے متعدد اقدام کیے ہیں جن میں انھیں سلامتی کے احساس کے ساتھ کام کرنے کا ماحول فراہم کرنا بھی شامل ہے۔