پاکستان میں متوسط طبقہ تیزی سے فروغ پا رہا ہے: نامور معیشت داں

  • خلیل بگھیو

اربن انسٹی ٹیوٹ

ریحانہ رضا کا کہنا تھا کہ مختلف اعتبار سے پاکستان کا موازنہ نائجیریا اور بنگلہ دیش سے کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن، اب پاکستان میں سالانہ دو لاکھ سے پانچ لاکھ خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں؛ 85 فی صد میٹرک؛ 24 فی صد بیچلر جب کہ 8 فی صد گریجوئیشن کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں

ماہرینِ اقتصادیات کا کہنا ہے کہ کئی چیلنجوں کے باوجود، پاکستان تیزی سے بہتری کی جانب قدم بڑھا رہا ہے، جہاں غربت قدرے کم ہوئی ہے، شہری علاقوں کی جانب منتقلی کا رجحان بڑھ رہا ہے، تعلیم، خصوصاً بچیوں کی تعلیم، فروغ پا رہی ہے، جب کہ متوسط طبقے خاصہ اضافہ آیا ہے۔

ماہرین نے بتایا کہ پاکستان کا شمار ’ابھرتی ہوئی مارکیٹ‘ میں ہوتا ہے، جو دنیا کی سرمایہ کاری کی 10 فی صد نمائندگی حاصل کرنے کے بعد 23 ملکوں کی صف میں کھڑا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ غربت، پسماندہ تعلیمی نظام، بجلی کی رسائی کے مسائل کے علاوہ پاکستان شدت پسندی اور انتہاپسندی جیسے خطرات سے دوچار ہے۔ لیکن، ماہرین نے بتایا کہ غربت میں نسبتاً کمی آئی ہے جب کہ بہتر خدمات اور رہائشی سہولیات تک رسائی ممکن بنی ہے۔

منگل کے روز واشنگٹن کے ’اربن انسٹی ٹیوٹ‘ میں ایک محفل ِ مذاکرہ منعقد ہوا، جس کا عنوان ’پاکستان کا ابھرتا ہوا متوسط طبقہ، تغیر پذیر ملک کا ایک سبق آموز تجربہ‘ تھا۔ ’سینٹر فور انٹرنیشنل ڈولپمنٹ اینڈ گورننس‘ کے سربراہ، چارلس کیڈویل اور ’کنسورشیم فور ڈولپنمٹ پالیسی رسرچ‘ کے چیرمین، اعجاز نبی نے خیرمقدمی کلمات ادا کیے۔

ماہرین کے پینل میں، وڈیو لائن پر ’لمس‘ کے سینئر استاد علی چیمہ؛ ’بروکنگز انسٹی ٹیوٹ‘ کے اسکالر ہومی خراس؛ عالمی بینک کی غربت میں کمی سے متعلق شعبے سے منسلک سرکردہ معیشت داں، غزالہ منصوری؛ اور ’اربن انسٹیٹیوٹ‘ کے ’سینٹر آن انٹرنیشنل ڈولپمنٹ اینڈ گورننس‘، کی سینئر رسرچ ایسو سی ایٹ، ریحانہ رضا شامل تھیں۔

ماہرین نے کہا کہ شرع نمو میں درکار تیزی سے اضافہ نہیں ہو رہا، اور 6.5 فی صد مجموعی قومی پیداوار کے ہدف کا حصول مشکل لگتا ہے؛ جب کہ مینوفیکچرنگ اور خدمات کے شعبوں میں روزگار کے مواقع میں اضافہ آیا ہے، جس سے متوسط طبقے نے استفادہ کیا ہے۔

ہومی خراس نے کہا کہ اِس وقت پاکستان کی 20 کروڑ سے زائد آبادی کا 27 فی صد متوسط طبقے پر مشتمل ہے؛ جو 2030ء تک آبادی کے 27 فی صد سے بڑھ کر 66 فی صد تک پہنچ جائے گا۔

اُنھوں نے کہا ہے کہ متوسط طبقے کی مارکیٹ 2030ء تک 10 کھرب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ ادھر، متوسط طبقے میں اضافے کا ازخود نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ زیادہ مواقع پیدا ہوتے ہیں، تعلیم، رہائش، صحت عامہ، شہری علاقوں میں رہائش اور خدمات میں بہتری آتی ہے اور سلامتی اور استحکام کے لیے مطالبات زور پکڑتے ہیں؛ اور یہی طبقہ بیرونی سرمایہ کاری کی توجہ مبذول کراتا ہے۔

غزالہ منصوری نے کہا کہ ترقی کی رفتار کا دارومدار متوسط طبقے کی تعداد پر منحصر ہے؛ جس سے مجموعی قومی پیداوار، شرح نمو اور کھپت میں اضافہ آتا ہے؛ جب کہ، دوسری جانب، آمدن نسبتاً بڑھتی ہے اور تعلیم میں اضافہ آتا ہے۔

اُنھوں نے بتایا کہ متوسط طبقے کا 15 فی صد اب بھی دیہات میں رہتا ہے، جب کہ بحیثیتِ مجموعی پاکستان کے دیہات جن میں سندھ اور جنوبی پنجاب کا خطہ شامل ہے، غربت میں کمی آنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

اُنھوں نے بتایا کہ عام طور پر پانچ سے آٹھ ڈالر یومیہ آمدن کا درجہ غربت سے نجات پانے کی سطح خیال کیا جاتا ہے۔

ریحانہ رضا کا کہنا تھا کہ مختلف اعتبار سے پاکستان کا موازنہ نائجیریا اور بنگلہ دیش سے کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن، اب پاکستان میں سالانہ دو لاکھ سے پانچ لاکھ خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں؛ 85 فی صد میٹرک؛ 24 فی صد بیچلر جب کہ 8 فی صد گریجوئیشن کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

اُنھوں نے بتایا کہ جنوبی ایشیا کی 25 فی صد ’لیبر مارکیٹ‘ خواتین پر مشتمل ہے؛ اور اب لڑکیوں کے لیے معاشی شعبے میں قدم رکھنا نسبتاً سہل اور سودمند ثابت ہورہا ہے؛ اور خواتین کے لیے مواقع بڑھ رہے ہیں۔

علی چیمہ نے ووٹنگ میں مرد اور خواتین کی شرکت سے متعلق لاہور میں کرائے گئے ایک سروے کی جانب دھیان مبذول کرایا، جس سے پتا چلتا ہے کہ خواتین اب بھی اپنی مرضی سے رائے دہی میں حصہ نہیں لیتیں، بلکہ وہ محض آنکھیں بند کرکے مرد حضرات کی پسند کے عین مطابق ووٹ دیتی ہیں۔

اعجاز نبی کا کہنا تھا کہ سالانہ بیرونی ترسیلِ زر 30 ارب ڈالر ہے، جس میں سے 20 ارب ڈالر باضابطہ طور پر، جب کہ 10 ارب ڈالر ناجائز طریقے سے ملک میں پہنچتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں، ہومی خراس نے کہا کہ پاکستانی برآمدات نہیں بڑھ رہی ہیں، جب کہ ملک میں 30 ارب ڈالر کی ترسیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ افراد میں سرمایہ کاری کے سودمند نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔

اس سوال پر کہ ملک دہشت گردی کا شکار ہے، ماہرین نے بتایا کہ متوسط طبقے میں اضافے کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ملکی استحکام اور قانون کی حکمرانی کے مطالبات زور پکڑتے ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں، ماہرین نے کہا کہ دو کروڑ آبادی والے شہر کراچی میں معیاری سہولیات کا فقدان ہے، جب کہ نجی اسکول اور اسپتال فروغ پا رہے ہیں۔