ٹی ٹی پی اور حکومت معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے تھے: سینیٹر مشاہد حسین کا دعویٰ

مشاہد حسین کے بقول یہ بات اُنہیں طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے بتائی۔

سینیٹ آف پاکستان کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے دعویٰ کیا ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور حکومت معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔ لیکن بعض وجوہات کی بنا پر یہ مذاکرات ناکام ہو گئے۔

سینیٹر مشاہد حسین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ بات اُنہیں طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے ایران میں ایک کانفرنس کے دوران بتائی۔

مشاہد حسین سید نے کہا کہ ان کی طالبان وزیرِ خارجہ سے ہفتے کو ہونے والی ملاقات ذاتی حیثیت میں تھی اور اس ملاقات میں کوئی سرکاری افسر موجود نہیں تھا۔

مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ یہ ملاقات دوستانہ اور خوش گوار ماحول میں ہوئی جس میں دو طرفہ تعلقات اور ٹی ٹی پی کے معاملے پر بھی بات چیت ہوئی۔

مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ نے پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بعض واقعات اور حادثات کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر منفی اثر نہیں پڑنا چاہیے۔ خاص طور پر سرحد پر دو طرفہ آمد و رفت اور تجارت کو بند نہیں ہونا چاہیے۔

مشاہد حسین سید کے بقول ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکام کے درمیان ہونے والی بات چیت کا ذکر کرتے ہوئے امیر خان متقی نے کہا کہ یہ مذاکرات افغان طالبان حکومت کی ثالثی میں ہوئے تھے اور یہ بات چیت کابل میں ہوئی تھی۔

SEE ALSO: پاک افغان تعلقات میں سرد مہری؛ مولانا فضل الرحمٰن کا مجوزہ دورۂ کابل کتنا اہم ہے؟

مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ امیر خان متقی کے بقول کافی معاملات طے پا گئے تھے سوائے فاٹا کے انضمام کے معاملے کے جس کی وجہ سے یہ مذاکرات آگے نہ بڑھ سکے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے دور میں پاکستانی حکام اور ٹی ٹی پی کے درمیان افغان طالبان کی ثالثی میں مذاکرات کی ناکامی کی کئی وجوہات ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ٹی ٹی پی کی طرف سے بعض ایسی شرائط تھیں جن کا پاکستانی ریاست کے لیے ماننا ممکن نہیں تھا۔

یاد رہے کہ پاکستانی حکام اور ٹی ٹی پی کے درمیان بات چیت 2021 میں شروع ہوئی تھی۔ لیکن اپریل 2022 میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد یہ مذاکرات ختم ہو گئے تھے۔ اس کے بعد ٹی ٹی پی سے مذاکرات سے متعلق پالیسی بھی تبدیل ہو گئی تھی۔

سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سعد محمد کہتے ہیں کسی بھی ریاست کے لیے کسی عسکری گروپ کے ریاست کے اندرونی اور خارجہ پالیسی سے متعلق مطالبات کو ماننا آسان نہیں ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

طالبان حکومت ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے ایران کی جانب کیوں دیکھ رہی ہے؟

ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں صرف قبائلی علاقوں کے انضمام کو واپس لینے کی شرط ہی نہیں تھی بلکہ کئی اور مطالبات بھی تھے جس میں آئین کو تبدیل کرنا بھی شامل تھا۔

لیکن پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے صرف ان عناصر کو معافی مل سکتی ہے جو پاکستان کے آئین اور ریاست کی عمل درای کو قبول کریں گے اور فاٹا کے انضمام پر کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی۔

واضح رہے کہ افغانستان میں اگست 2021 میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور ان واقعات میں زیادہ تر کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔

پاکستان کا مطالبہ ہے کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف مؤثر کارروائی کرے اور پاکستان میں حملوں میں مبینہ طور پر ملوث ٹی ٹی پی کے بعض رہنماؤں کو پاکستان کے حوالے کرے۔ لیکن افغان طالبان کا مؤقف ہے کہ وہ کسی بھی گروپ یا تنظیم کو افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔

تاہم پاکستان کا ماننا ہے کہ افغانستان کی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے اور افغان حکومت کو ان گروہوں کے خلاف کارروائی کرنی ہو گی جو پاکستان کے خلاف سر گرم ہیں۔

SEE ALSO: پاکستان کا دہشت گردی پر افغانستان سے احتجاج؛ کیا تعلقات مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے؟


تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات نہایت کشیدہ ہیں اور باضابطہ طور پر بات چیت کا عمل بھی متاثر ہوا ہے۔

'افغان پالیسی میں تسلسل کی ضرورت ہے'

سینیٹر مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بات چیت کا سلسلہ برقرار رہنا چاہیے اور اعلیٰ سطح پر اسلام آباد اور کابل کے درمیان بات چیت اور رابطوں کا سلسلہ بحال کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کے بقول جب یہ رابطہ ٹوٹ جاتا ہے تو پھر الزام تراشی شروع ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک مسلسل اور پائیدار رابطہ رہے تاکہ اس سے ان کو بھی معلوم ہو کہ پاکستان اور افغانستان دونوں کے کیا تحفظات ہیں۔

مشاہد حسین کہتے ہیں کہ پاکستان کو اعتدال کی پالیسی اخیتار کرنی چاہیے اور مہذب طریقے سے بات چیت کر کے معاملات کو گفت و شنید کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔

مشاہد حسین کے بقول بات چیت کے لیے پہل کرنا ہو گی اور کابل کے ساتھ اعلیٰ سطح رابطہ بحال کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ چاہے سرحد کے معاملات ہوں یا افغان مہاجرین کے، یہ سب بات چیت کے ذریعے حل ہو سکتے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان میں دہشت گردی؛ 'صرف افغان طالبان پر ذمے داری ڈالنا درست نہیں'

لیکن تجزیہ کار طاہر خان کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان مسائل نہایت پیچیدہ ہیں اور اس وقت دونوں ممالک اس بات پر تیار نظر نہیں آتے کہ ان کا کوئی حل نکالیں اور ان کی معلومات کے مطابق افغان طالبان پاکستان میں کوئی وفد بھیجنے پر تیار نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ افغان طالبان پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات خاص طور پر ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کی مذمت کرے۔ لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا ہے۔

طاہر خان کہتے ہیں اگر ان معاملات کا حل نکالنا ہے تو دونوں ممالک کو معاملات سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔ تاہم ان کے بقول دونوں ہی ملک ایک دوسرے کے خلاف بیانات دینے میں میڈیا کو استعمال کرتے ہیں۔

لیکن طاہر خان کہتے ہیں کہ ایران میں سینیٹر مشاہد حسین سے افغان طالبان کے وزیر خارجہ کی ملاقات میں پاکستان سے بات چیت کی خواہش کا اظہار ایک اچھی بات ہے۔ لیکن یہ ڈائیلاگ خفیہ نہیں ہونے چاہئیں بلکہ اسے کھلے عام سفارتی سطح پر ہونا چاہیے۔