پاکستانی ناول نگار حسن نقوی نے پہلا جنوبی ایشیائی ادبی ایوارڈ جیت لیا

پاکستان میں ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جو اپنے ملک کا نام روشن کرنے اور اس کی شناخت بہتر بنانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ ایسے ہی ایک نوجوان ہیں ایچ ایم نقوی ، جن کی پہلی تصنیف ’ ہوم بوائے‘ نے حال ہی میں ایک معروف جنوبی ایشیائی ایوارڈ جیتا ہے۔ ان کا یہ ناول امریکہ اور بھارت میں چھپنے کے بعد اب پاکستان میں بھی شائع ہوگیا ہے۔

اپنے اس ناول میں انہوں نے 11 ستمبر 2001ء کے بعد امریکہ میں رہنے والے کچھ پاکستانیوں کی زندگی کی تصویر کشی کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ان دہشت گرد حملوں کے بعد انہیں کس صورت حال سے گذرنا پڑا تھا۔

ناول میں نیویارک میں رہنے والے تین پاکستانیوں کی کہانی بیان کی گئی ہے جو 11 ستمبر 2001 کے بعد اپنے ایک گمشدہ دوست کی تلاش میں نکلتے ہیں۔

نقوی کا کہنا ہے کہ ہوم بوائے صرف ان تین دوستوں کی کہانی ہی بیان نہیں کرتی، بلکہ امریکہ میں مسلمانوں کی بدلتی ہوئی سوچ کی عکاسی بھی کرتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ نیویارک میں رہنے والے یہ تین پاکستانی نوجوان اپنے آپ کو ایک منفرد طرز زندگی کا مالک سمجھتے ہیں۔ لیکن راتوں رات سیاسی اور سماجی ماحول میں ایسی تبدیلی آتی ہے جو انہیں اپنے نظریات اور خیالات کو ایک نئے نقطہ نظر سے دیکھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

حسن نقوی کہتے ہیں کہ نائین الیون کے بعد سیاسی اور سماجی موسم کے بدلتے ہوئے رنگوں نے ایک ایسی کہانی تحریر کی جس میں ناول کے ہر کردار نے تصنیف میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ کہانی کا ایک اہم کردار چک اس کہانی کا ایک ایسا ہی جزو ہے۔ اس کا کردار کہانی کو آگے بڑھاتا ہے۔ اس صورت میں گو چک کی کہانی امریکہ میں رہنے والے پاکستانیوں کے نظریات کی عکاسی کرتی ہے، لیکن 11/9 کے بارے میں سوچنے کا یہی واحد طریقہ نہیں۔ بلکہ اسے 11/9 کے بعد پیش آنے والے مسائل اور مشکلات کا ایک افسانوی بیان کہا جا سکتا ہے۔

اور کہانی کے مرکزی کردارچک کی آواز میں کچھ آواز حسن نقوی کی بھی شامل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر ناول ایک طرح سے منصف کی آپ بیتی بھی ہوتاہے۔ آپ کیسا بھی کردار ایجاد کریں، اس کا منصف سے گہرا تعلق قائم ہوجاتاہے ۔

اگر انہیں کوئی اعداد و شمار پیش کرنے کو کہے تو وہ یہ کہیں گے کہ ان کی کتاب کے مرکزی کردار کی ان سے 16 فی صد مشابہت ہے۔

مرکزی کردار چک کے ساتھ ہیں ان کے دوست، علی چودھری یااے سی اور جمشید خان یاجمبو۔

نقوی کہتے ہیں کہ میں امریکہ میں رہنے والے پاکستانیوں کے تجزبات سے بنائی گئی رنگین تصویر کو اس کہانی میں منعکس کرنا چاہتا تھا۔

امریکہ میں رہنے والے پاکستانیوں کی اس کہانی کو بہت منفرد انداز میں بیان کیا گیا ہے۔کتاب میں کہیں کہیں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے مصنف نثر اور نظم کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ جس کا نتیجہ ایک ایسی کہانی کی شکل میں سامنے آیا جسے نہ صرف امریکہ، بلکہ پاکستان اور بھارت میں بھی خوب سراہا جا رہا ہے۔