پاکستان میں دوران زچگی 85 کیسز میں سے 15 میں پیچدگیاں ہوتی ہیں، جسے سمجھنا ایک غیر تربیت یافتہ دائی کا کام نہیں۔
کراچی —
پاکستان میں جہاں تشدد اور غیرت کے نام پر خواتین کو موت کے بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے وہیں ہزاروں خواتین ماں بننے کے عمل کے دوران موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں دوران زچگی خواتین کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں ایک لاکھ ماؤں میں سے 377 دوران زچگی ہلاک ہوجاتی ہیں۔
ملک میں جہاں صحت کے مسائل حل طلب ہیں وہیں پاکستانی خواتین ماؤں کی غیر فطری موت کی شرح کو کم کرنے کے لیے کسی قسم کے عملی اقدامات نہیں کئے جا رہے جس کی اہم وجہ تربیت یافتہ مڈوائوز کی کمی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مڈوائف ایسوسی ایشن پاکستان کی سربراہ امتیاز کمال نے بتایا کہ پاکستان میں 80 ہزار کے قریب دیہات ہیں جہاں کسی ڈاکٹر یا مڈوائف کے بغیر دائی خواتین بچے کی پیدائش کرواتی ہیں۔ ’’جس کی بڑی وجہ غربت بھی ہے، غریب طبقہ زچگی کے دوران خرچ سے بچنے کیلئے ان دائیوں کا سہارا لیتا ہے۔ دیہاتوں میں صحت کے بنیادی سہولتیں نہ ہونے اور تربیت یافتہ مڈوائوز نہ ہونے کے سبب خواتین اکثر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔‘‘
امتیاز کمال بتاتی ہیں کہ دوران زچگی 85 کیسز میں سے 15 میں پیچدگیاں ہوتی ہیں جسے سمجھنا ایک غیر تربیت یافتہ دائی کا کام نہیں۔ دیہاتوں کے ساتھ ساتھ شہری علاقوں میں بھی دائیاں کام کررہی ہیں جس کی وجہ شعبہ صحت میں خواتین اسٹاف کی کمی ہے۔ ان کے بقول ہر علاقے میں ایک مڈوائف اور پورے ملک کے لیے ایک لاکھ مڈوائفز کی ضرورت ہے۔
امیتاز کمال کہتی ہیں کہ پاکستان میں مڈوائفز کو بہتر تربیت نہیں دی جا رہی ہے۔ ’’ جیسے تعلیم کا شعبہ زوال کا شکار ہوا اسی طرح مڈوائف کے شعبے میں بھی بہترین تربیت دینے اور ٹیچرز کی کمی ہے۔ ہمارے ہاں مڈوائف کو تھیوری پڑھائی جاتی ہے مگر عملی طریقے سکھانے کا کام نہیں کیا جاتا جس سے تربیت ادھوری رہتی ہے۔‘‘
امتیاز کمال بتاتی ہیں کہ مڈوائوز کی تربیت اور تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کی ضرورت ہے اور ’’ملک میں ایک ڈاکٹر اور 4 مڈوائف ہوں، جب یہ شرح ہو جائے گی تو ماؤں کی اموات کی شرح میں کمی لائی جا سکتی ہے۔‘‘
امتیاز کمال مڈوائفری شعبے کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ خواتین میں اس شعے کو اختیار کرنے کے لئے آگاہی پروگرام ترتیب دینے کی ضرورت ہے کہ مڈوائف اور دائی میں کیا فرق ہے اور شعبے سے دوران زچگی کتنی خواتین کی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔
جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں دوران زچگی خواتین کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں ایک لاکھ ماؤں میں سے 377 دوران زچگی ہلاک ہوجاتی ہیں۔
ملک میں جہاں صحت کے مسائل حل طلب ہیں وہیں پاکستانی خواتین ماؤں کی غیر فطری موت کی شرح کو کم کرنے کے لیے کسی قسم کے عملی اقدامات نہیں کئے جا رہے جس کی اہم وجہ تربیت یافتہ مڈوائوز کی کمی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مڈوائف ایسوسی ایشن پاکستان کی سربراہ امتیاز کمال نے بتایا کہ پاکستان میں 80 ہزار کے قریب دیہات ہیں جہاں کسی ڈاکٹر یا مڈوائف کے بغیر دائی خواتین بچے کی پیدائش کرواتی ہیں۔ ’’جس کی بڑی وجہ غربت بھی ہے، غریب طبقہ زچگی کے دوران خرچ سے بچنے کیلئے ان دائیوں کا سہارا لیتا ہے۔ دیہاتوں میں صحت کے بنیادی سہولتیں نہ ہونے اور تربیت یافتہ مڈوائوز نہ ہونے کے سبب خواتین اکثر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔‘‘
امتیاز کمال بتاتی ہیں کہ دوران زچگی 85 کیسز میں سے 15 میں پیچدگیاں ہوتی ہیں جسے سمجھنا ایک غیر تربیت یافتہ دائی کا کام نہیں۔ دیہاتوں کے ساتھ ساتھ شہری علاقوں میں بھی دائیاں کام کررہی ہیں جس کی وجہ شعبہ صحت میں خواتین اسٹاف کی کمی ہے۔ ان کے بقول ہر علاقے میں ایک مڈوائف اور پورے ملک کے لیے ایک لاکھ مڈوائفز کی ضرورت ہے۔
امیتاز کمال کہتی ہیں کہ پاکستان میں مڈوائفز کو بہتر تربیت نہیں دی جا رہی ہے۔ ’’ جیسے تعلیم کا شعبہ زوال کا شکار ہوا اسی طرح مڈوائف کے شعبے میں بھی بہترین تربیت دینے اور ٹیچرز کی کمی ہے۔ ہمارے ہاں مڈوائف کو تھیوری پڑھائی جاتی ہے مگر عملی طریقے سکھانے کا کام نہیں کیا جاتا جس سے تربیت ادھوری رہتی ہے۔‘‘
امتیاز کمال بتاتی ہیں کہ مڈوائوز کی تربیت اور تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کی ضرورت ہے اور ’’ملک میں ایک ڈاکٹر اور 4 مڈوائف ہوں، جب یہ شرح ہو جائے گی تو ماؤں کی اموات کی شرح میں کمی لائی جا سکتی ہے۔‘‘
امتیاز کمال مڈوائفری شعبے کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ خواتین میں اس شعے کو اختیار کرنے کے لئے آگاہی پروگرام ترتیب دینے کی ضرورت ہے کہ مڈوائف اور دائی میں کیا فرق ہے اور شعبے سے دوران زچگی کتنی خواتین کی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔