پاکستان اور افغانستان کے درمیان تناؤ میں کمی ضروری: قانون ساز

Your browser doesn’t support HTML5

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے رکن رانا محمد افضل نے کہا کہ پاکستان کی یہ کوشش ہو گی کہ وہ افغانستان کے تحفظات کو دور کرے۔

پاکستان میں قانون سازوں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان تعلقات میں تناؤ سے مصالحتی عمل پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے، اس لیے دونوں حکومتوں کو چاہیئے کہ وہ دیرپا امن کے قیام کے لیے دوطرفہ تعاون کو یقینی بنائیں۔

افغانستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد صدر اشرف غنی کی طرف سے پاکستان پر تنقید سے پیدا ہونے والی صورت حال کے تناظر میں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی دہشت گردی کے خلاف پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون پر زور دیا تھا۔

صدر اشرف غنی نے پیر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان میں اب بھی دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں جہاں سے افغانستان کو جنگ کے پیغامات ملتے ہیں۔

افغان صدر اشرف غنی

اُن کے اس بیان پر پاکستانی وزارت خارجہ نے کہا کہ خود پاکستان کو بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے جس میں اب تک 60 ہزار سے زائد پاکستانی اپنی زندگیاں قربان کر چکے ہیں۔

پاکستان کی طرف سے یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ افغانستان کا دشمن پاکستان دشمن ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر داخلہ اور قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ خطے میں دیرپا امن کے قیام کے لیے اسلام آباد اور کابل کے درمیان تناؤ میں کمی لانا اشد ضروری ہے۔

سینیٹر لفیٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقیوم کہتے ہیں کہ افغانستان میں بدامنی کسی طور بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے رکن رانا محمد افضل نے کہا کہ پاکستان کی یہ کوشش ہو گی کہ وہ افغانستان کے تحفظات کو دور کرے۔

واضح رہے کہ افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے بیان کے بعد امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان جان کربی نے پیر کو معمول کی روزانہ کی نیوز بریفنگ میں کہا تھا کہ واشنگٹن کے پاس ایسی مخصوص انٹیلی جنس معلومات نہیں ہیں جن کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں پاکستان ملوث ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ یہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے کہ وہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کریں اور سرحد کے دونوں جانب طالبان کی حملوں کی صلاحیت کو کم کریں۔

اُنھوں نے اس توقع کا اظہار بھی کیا کہ دہشت گردوں کے حملوں کی وجہ سے امن کا عمل پٹڑی سے نہیں اترے گا۔

کابل میں ہونے والے ایک دہشت گرد حملے کے بعد کا منظر

افغانستان میں مصالحت کی کوششوں کے سلسلے میں حال ہی میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا اور پہلی مرتبہ سات جولائی کو اسلام آباد کے قریب سیاحتی علاقے مری میں افغان طالبان اور افغانستان کی حکومت کے درمیان براہ راست مذاکرات ہوئے۔

بات چیت کا دوسرا دور گزشتہ ماہ کے اواخر میں پاکستان میں ہی طے تھا لیکن طالبان کے سربراہ ملا عمر کے انتقال کی خبروں کی تصدیق کے بعد مذاکرات کا عمل موخر کر دیا گیا۔

ملا عمر کے انتقال کے بعد طالبان نے ملا اختر منصور کو نیا سربراہ منتخب کیا لیکن بعض طالبان دھڑوں کو اس سے اختلاف ہے، جس کی وجہ سے مذاکرات کے عمل کے مستقبل کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ ہفتے طالبان کی طرف سے افغان دارالحکومت کابل میں حالیہ مہینوں کے مہلک ترین حملے کیے گئے جن میں لگ بھگ 60 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔

بظاہر ان ہی حملوں کے ردعمل میں افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے پہلی مرتبہ سخت تنقیدی بیان سامنے آیا اور اُنھوں نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ہاں طالبان کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کرے۔