پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کی رہائشی ایک خاتون پروین کاظمی نے پاکستان اور بھارت کے حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ بھارتی کشمیر میں گھر سے بے دخل کی جانے والی اس کی بیٹی کبری گیلانی کو واپس آنے کی اجازت دیں۔
پروین کاظمی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس کی بیٹی کبری گیلانی کی بھارتی کشمیر سے ہجرت کر کے آنے والے ایک ضلع اننت ناگ کی تحصیل ککر ناگ کے گاوں پنج گام کے محمد الطاف ولد محمد مقبول سے 2010 میں مظفرآباد میں شادی ہوئی تھی جو اسے 2014 میں نیپال کے راستے بھارتی کشمیر لے گیا۔ جہاں اس نے مبینہ طور پر اولاد نہ ہونے کے بہانے چند ماہ قبل طلاق دیکر گھر سے نکال دیا تھا۔
جس کے بعد سے وہ وہاں لوگوں کے گھروں میں محنت مزوری کر کے گزر بسر کر رہی ہے۔
کبریٰ گیلانی نے بھارتی کشمیر سے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے بیان میں کہا ہے بھارتی حکام نے اسے مبینہ طور پر پاکستان آنے سے روک دیا ہے۔
کبریٰ گیلانی کا تعلق پاکستانی کشمیر کے وزیر اعظم فاروق حیدر خان کے حلقہ انتخاب کوٹلہ چناری ضلع ہٹیاں بالا سے ہے۔
تاہم پروین کاظمی کا کہنا ہے وہ مظفرآباد میں کئی سرکاری عہدے داروں کے پاس اپنی فریاد لے کر گئی لیکن کسی نے اس کی مدد نہیں کی۔
کبریٰ گیلانی کا کہنا ہے کہ اس کے والد چھ دسمبر 2018 کو دل کا دورہ پڑنے کے باعث انتقال کر گئے تھے۔ مجھ سے ملاقات ان کی آخری خواہش تھی۔
پاکستانی کشمیر کے وزیر اعظم فاروق حیدر خان کے پریس سیکرٹری راجہ وسیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 2014 میں بھارتی کشمیر جانے والوں کو وہاں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ وزیر اعظم کے نوٹس میں لا کر دفتر خارجہ کے ذریعہ کبریٰ گیلانی کی واپسی کے لیے اقدامات کیے جائیں گئے۔
سن 2014 میں بھارتی کشمیر کی حکومت کی طرف پاکستانی کشمیر آنے والوں کی واپسی اور اپنے آبائی علاقوں میں بحالی کا اعلان کیا گیا تھا جس کے بعد پاکستانی کشمیر میں پناہ گزین سینکڑوں خاندان نیپال کے راستے واپس بھارتی کشمیر چلے گئے تھے۔