وفد کے سربراہ راجیش نے صحافیوں سے گفتگو میں پاکستان سے ہندؤوں کے انخلاء کی اطلاعات کو’افواہیں‘ قرار دے کر مسترد کیا
پاکستان کے جنوبی صوبہ ٴ سندھ سے تعلق رکھنے والے اقلیتی ہندو برادری کے 100 ارکان پر مشتمل ایک وفد نے ہفتہ کو بھارت پہنچنے پر مقامی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کے دورے کا مقصد سیاسی پناہ مانگنا نہیں، بلکہ ہندؤوں کے مقدس مقامات کی زیارت ہے۔
اِس سے قبل جمعہ کو بھی 115 پاکستانی ہندو واہگہ کے راستے امرتسر پہنچے تھے۔
تازہ ترین وفد کے سربراہ راجیش نے صحافیوں سے گفتگو میں ان دعوؤں کی بھی تردید کی کہ پاکستانی حکام نے روانگی سے قبل اُن سے زبردستی حلف لیا کہ وہ بھارتی حکومت سے پناہ کی درخواست کرنے کی بجائے33 روز کے اندر وطن واپس آجائیں گے۔
اُنھوں نے پاکستان سے ہندؤوں کے انخلاء کی اطلاعات کو بھی ’افواہیں‘ قرار دے کر مسترد کیا۔ اُن کے الفاظ میں، ’یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ ہندو خاندانوں کے وہ ارکان جو بھارت پہنچے ہیں پاکستان واپس جانے کی خواہش نہیں رکھتے۔ ہم یقیناََ سندھ میں اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔‘
اُنھوں نے کہا کہ وہ اور دیگر پاکستانی ہندو امرتسر، ہری دوار، رِشیکیش اور دہلی کے تاریخی مندروں کی یاترا ناکہ سیاسی پناہ لینے کے لیے پہنچے ہیں۔
’حقیت یہ ہے کہ پاکستان میں مقیم کوئی بھی ہندو خاندان اپنے آبائی گھروں اور کاروبار کو چھوڑ کر بھارت میں آباد ہونے کا نہیں سوچ سکتا۔‘
تاہم، وفد کے دیگر ارکان میں سےبعض نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان میں ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کرنے اور ہندو تاجروں کے اغوا برائے تاوان جیسے واقعات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس امکان کو رد نہیں کیا کہ اگر بھارت اُنھیں پناہ کی پیشکش کرے تو بڑی تعداد میں پاکستانی ہندو ہجرت کرنے پر تیار ہوں گے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ جمعرات کو ہندو برادری کے 250 ارکان بھارت جانے کے لیے سندھ سے جب لاہور ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تووفاقی وزیرداخلہ رحمٰن ملک نے بنا تحقیقات کے راتوں رات وزارت داخلہ کے اجازت نامے کے بغیران افراد کو سرحد پارجانے سے روکنے کے احکامات جاری کردیے۔
مزید برآں، وفاقی وزیر نے اتنی بڑی تعداد میں اقلیتی ہندو برادری کے ارکان کے ایک ساتھ ویزے جاری کرنے کو پاکستان کو بدنام کرنے کی بھارتی سازش کا نام بھی دے دیا۔
لیکن، بظاہر حکام کو اُس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب ریلوے اسٹیشن پر موجود ہندؤوں نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں انکشاف کیا کہ وہ اپنے بچوں اور خاندان کے دیگر ارکان کو پاکستان میں چھوڑ کر دراصل ہندؤ مندروں کی یاترا کے لیے بھارت جارہے ہیں، جس کے بعد اُنھیں سرحد پار جانے کی اجازت دے دی گئی۔
ادھر، ہندو خاندانوں کے بارے میں حقائق جاننے کے لیے، حال ہی میں صدر پاکستان نے ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل تین رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے، جو ہری رام، لعل چنداورمولا بخش چانڈیو پر مشتمل ہے۔ یہ کمیٹی ہندو خاندانوں کے تحفظات دور کرنے کے لیے عملی اقدامات تجویز کرے گی اور پھر اُن پر عملدرآمد یقینی بنائے گی۔ صدر زرداری نے اپنے نوٹس میں ہندو خاندانوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اِس سے قبل جمعہ کو بھی 115 پاکستانی ہندو واہگہ کے راستے امرتسر پہنچے تھے۔
تازہ ترین وفد کے سربراہ راجیش نے صحافیوں سے گفتگو میں ان دعوؤں کی بھی تردید کی کہ پاکستانی حکام نے روانگی سے قبل اُن سے زبردستی حلف لیا کہ وہ بھارتی حکومت سے پناہ کی درخواست کرنے کی بجائے33 روز کے اندر وطن واپس آجائیں گے۔
اُنھوں نے پاکستان سے ہندؤوں کے انخلاء کی اطلاعات کو بھی ’افواہیں‘ قرار دے کر مسترد کیا۔ اُن کے الفاظ میں، ’یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ ہندو خاندانوں کے وہ ارکان جو بھارت پہنچے ہیں پاکستان واپس جانے کی خواہش نہیں رکھتے۔ ہم یقیناََ سندھ میں اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔‘
اُنھوں نے کہا کہ وہ اور دیگر پاکستانی ہندو امرتسر، ہری دوار، رِشیکیش اور دہلی کے تاریخی مندروں کی یاترا ناکہ سیاسی پناہ لینے کے لیے پہنچے ہیں۔
’حقیت یہ ہے کہ پاکستان میں مقیم کوئی بھی ہندو خاندان اپنے آبائی گھروں اور کاروبار کو چھوڑ کر بھارت میں آباد ہونے کا نہیں سوچ سکتا۔‘
تاہم، وفد کے دیگر ارکان میں سےبعض نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان میں ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کرنے اور ہندو تاجروں کے اغوا برائے تاوان جیسے واقعات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس امکان کو رد نہیں کیا کہ اگر بھارت اُنھیں پناہ کی پیشکش کرے تو بڑی تعداد میں پاکستانی ہندو ہجرت کرنے پر تیار ہوں گے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ جمعرات کو ہندو برادری کے 250 ارکان بھارت جانے کے لیے سندھ سے جب لاہور ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تووفاقی وزیرداخلہ رحمٰن ملک نے بنا تحقیقات کے راتوں رات وزارت داخلہ کے اجازت نامے کے بغیران افراد کو سرحد پارجانے سے روکنے کے احکامات جاری کردیے۔
مزید برآں، وفاقی وزیر نے اتنی بڑی تعداد میں اقلیتی ہندو برادری کے ارکان کے ایک ساتھ ویزے جاری کرنے کو پاکستان کو بدنام کرنے کی بھارتی سازش کا نام بھی دے دیا۔
لیکن، بظاہر حکام کو اُس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب ریلوے اسٹیشن پر موجود ہندؤوں نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں انکشاف کیا کہ وہ اپنے بچوں اور خاندان کے دیگر ارکان کو پاکستان میں چھوڑ کر دراصل ہندؤ مندروں کی یاترا کے لیے بھارت جارہے ہیں، جس کے بعد اُنھیں سرحد پار جانے کی اجازت دے دی گئی۔
ادھر، ہندو خاندانوں کے بارے میں حقائق جاننے کے لیے، حال ہی میں صدر پاکستان نے ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل تین رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے، جو ہری رام، لعل چنداورمولا بخش چانڈیو پر مشتمل ہے۔ یہ کمیٹی ہندو خاندانوں کے تحفظات دور کرنے کے لیے عملی اقدامات تجویز کرے گی اور پھر اُن پر عملدرآمد یقینی بنائے گی۔ صدر زرداری نے اپنے نوٹس میں ہندو خاندانوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔