انتہا پسندی کی حوصلہ شکنی کیے لیے ایک مثبت کوشش

گوہر آفتاب کے خیال میں معاشرے میں یہ پیغام اجاگر ہو چکا ہے اور اب ایسے جرات مند لوگوں کی قابل ذکر تعداد کی ضرورت ہے جو غیر صحت مندانہ سوچ رکھنے والے عناصر کے خلاف آواز بلند کریں اور ان کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیں۔

دہشت گردی سے شدید متاثرہ ملک پاکستان میں اس کے انسداد کے لیے سکیورٹی فورسز تو اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن اس مسئلے کے پائیدار حل کے لیے سماجی رویوں میں تبدیلی ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے اور یہی وہ سوچ تھی جس نے چند نوجوانوں کو ایک ساتھ مل کر کام کرنے پر راغب کیا۔

’سی ایف ایکس، کامکس‘ نامی ادارے نے خاکوں پر مبنی پیغاماتی کہانیوں "پاسبان" کا سلسلہ شروع کیا جس کے ذریعے دہشت گردی اور انتہا پسندانہ سوچ کی حوصلہ شکنی پر توجہ دی جا رہی ہے۔

ان کہانیوں کے مصنف گوہر آفتاب نے مصطفیٰ حسنین اور یحییٰ احسان کے ساتھ مل کر یہ سلسلہ شروع کیا۔

اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے گوہر کا کہنا تھا کہ اولاً وہ چاہتے تھے کہ مختلف سماجی موضوعات اور معاشرے میں پائے جانے والے منفی رجحانات پر کام کیا جائے لیکن گزشتہ سال 16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد انھوں نے رویوں میں تبدیلی لا کر دہشت گردی و انتہا پسندی سے نمٹنے کی راہ ہموار کرنے پر توجہ مرکوز کی۔

"یہ وہ وقت جب ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم باقی (ہلکے پھلکے موضوعات) کو چھوڑ دیں اور جو بھی وسائل ہمارے پاس ہیں ہم اس (دہشت گردی کے خلاف) سلسلے کو بنائیں گے۔ ہم نے اس کے کرداروں کو 12 سے 18 سال کے بچوں کے مطابق ڈھالا، مصطفیٰ نے امجد اسلام امجد صاحب کو اس میں شامل کیا (انھوں نے اس کا اردو ترجمہ کیا)۔"

اس سلسلے کو شروع کرنے کے بعد ان کے پاس اسکولوں میں موسم گرما کی تعطیلات کے آغاز سے قبل تک کا وقت تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ بچوں تک یہ کہانیاں پہنچائی جا سکیں۔

گوہر نے بتایا کہ ابتدائی طور پر پنجاب اور اس کے جنوبی حصے میں اسکولوں اور ان کے متعلقہ اداروں سے رابطہ کیا اور اس دوران انھیں ایک غیر سرکاری تنظیم "امید جوان" کی طرف سے ان کہانیوں کی اشاعت کے لیے تعاون حاصل رہا۔

"ہم نے 15 جون تک 15 ہزار کتابیں پانچ ہزار بچوں میں تقسیم کر دی تھیں، ان میں لاہور، ملتان اور ضلع لودھراں کے مختلف دیہاتوں کے اسکول شامل ہیں۔"

16 دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پر حملے میں 134 بچوں سمیت 150 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور اسے ملکی تاریخ کا بدترین دہشت گرد واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔

اس حملے کے بعد جہاں ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا اعلان کیا گیا وہیں یہ رائے عامہ بھی ہموار ہوئی ہے کہ ملک میں قیام امن کے لیے انتہا پسندوں کا راستہ روکنا بہت ضروری ہے۔

گوہر آفتاب کے خیال میں معاشرے میں یہ پیغام اجاگر ہو چکا ہے اور اب ایسے جرات مند لوگوں کی قابل ذکر تعداد کی ضرورت ہے جو غیر صحت مندانہ سوچ رکھنے والے عناصر کے خلاف آواز بلند کریں اور ان کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیں۔

گوہر اور ان کے ساتھیوں نے پاسبان کی موبائل اپلیکیشن بھی تیار کی ہے جسے انٹرنیٹ صارفین اپنے موبائل فون پر بھی مفت ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔