ملتان سے آئی ہوئی ایک خاتون نسیم جہاں کا کہنا تھا کہ قانون سازی اور حقوق کے تحفظ کی باتیں کرنے والے عورت کو انسان تو سمجھیں۔
اسلام آباد —
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہفتہ کو خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کی مناسبت سے ملک بھر میں مختلف تقاریب اور ریلیز کا اہتمام کیا گیا جس میں حقوق نسواں کی نمائندہ تنظیموں نے خواتین کے لیے معاشرے میں امتیازی سلوک کے خاتمے اور انھیں سماج میں جائز مقام دینے کے حق میں آواز بلند کی۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منعقدہ ایک ایسی ہی ریلی میں شریک خواتین کا کہنا تھا کہ ملک میں حالیہ برسوں میں خواتین کی فلاح و بہبود اور حقوق نسواں کے لیے قانون سازی مثبت پیش رفت ہے لیکن اس کے باوجود بھی خواتین اب تک معاشرے میں اپنا جائز مقام حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔
انسانی حقوق کی ایک سرگرم کارکن فرزانہ باری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ہر سال جب یہ دن منایا جا رہا ہوتا ہے تو خواتین کے خلاف کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ضرور وقوع پذیر ہو چکا ہوتا ہے جس سے اس دن کو خوشی سے نہیں منایا جا سکتا۔
’’ اس دن ہم اپنے دکھوں کی بات کرتی ہیں اپنے مسائل کی بات کرتی ہیں، احساس محرومی ہے معاشرے کے اندر ایک عدم مساوات ہے اس کا رونا ہم اکٹھے ہو کر روتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ خواتین پر تشدد یا ان کے حقوق کے غصب کیے جانے کے خلاف قوانین موجود ہونے کے باوجود جو لوگ ایسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں انھیں سزائیں ہوتی نظر نہیں آتیں۔
’’قوانین تو بنے ہیں لیکن یہ تو پہلا مرحلہ ہوتا ہے، اس کا نفاذ بہت ضروری ہے۔ ۔ ۔ جن کے لیے یہ قوانین بنتے ہیں انھیں بااختیار بنانا چاہیے تاکہ وہ اپنے مانگ سکیں۔‘‘
اس ریلی میں ملتان سے آئی ہوئی ایک خاتون نسیم جہاں کا کہنا تھا کہ قانون سازی اور حقوق کے تحفظ کی باتیں کرنے والے عورت کو انسان تو سمجھیں۔
’’پسماندہ علاقوں میں تو خواتین کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا، حقوق دینے کی بات تو بعد کی ہے۔‘‘
حکومت کا کہنا ہے کہ معاشرے کے تمام فریقوں کو خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق کوششوں میں سرکار کی معاونت میں اپنا فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔
صدر ممنون حسین نے اپنے ایک بیان میں کہ اکہ اس دن سے ہمیں خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنے اور انھیں ہر ممکنہ انداز میں سہولت دینے سے متعلق اپنے پختہ عزم کی تجدید کا موقع ملتا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے عالمی یوم خواتین پر اپنے پیغام میں کہا کہ حکومت خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے پرعزم ہے کیونکہ پائیدار ترقی کے لیے زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی شمولیت ضرورت ہے۔
وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے اس موقع پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہ اکہ خواتین کے حقوق کے حصول کے ضمن میں تہذیبی اور سماجی رویوں کو بدلنے کے لیے لوگوں کو کوششیں کرنا ہوں گی۔
’’پارلیمنٹ کے قوانین ان کو طاقتور نہیں بنا سکتے۔ پارلیمنٹ کے قوانین تحفظ دے سکتے ہیں معاشرے میں ایک فضا پیدا کرسکتے ہیں کچھ رجحانات جو غلط ہیں ان کو روک سکتے ہیں، لیکن ہمیں اپنے سماجی رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی، اپنے تہذیبی رویوں میں بھی تبدیلی لانا ہوگی۔‘‘
انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ خواتین کو سماج میں مساوی مقام دیے بغیر معاشرتی ترقی اور حصول ممکن نہیں اور اس کے لیے ہر سطح پر خواتین کو آواز بلند کرنا ہوگی۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منعقدہ ایک ایسی ہی ریلی میں شریک خواتین کا کہنا تھا کہ ملک میں حالیہ برسوں میں خواتین کی فلاح و بہبود اور حقوق نسواں کے لیے قانون سازی مثبت پیش رفت ہے لیکن اس کے باوجود بھی خواتین اب تک معاشرے میں اپنا جائز مقام حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔
انسانی حقوق کی ایک سرگرم کارکن فرزانہ باری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ہر سال جب یہ دن منایا جا رہا ہوتا ہے تو خواتین کے خلاف کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ضرور وقوع پذیر ہو چکا ہوتا ہے جس سے اس دن کو خوشی سے نہیں منایا جا سکتا۔
’’ اس دن ہم اپنے دکھوں کی بات کرتی ہیں اپنے مسائل کی بات کرتی ہیں، احساس محرومی ہے معاشرے کے اندر ایک عدم مساوات ہے اس کا رونا ہم اکٹھے ہو کر روتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ خواتین پر تشدد یا ان کے حقوق کے غصب کیے جانے کے خلاف قوانین موجود ہونے کے باوجود جو لوگ ایسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں انھیں سزائیں ہوتی نظر نہیں آتیں۔
’’قوانین تو بنے ہیں لیکن یہ تو پہلا مرحلہ ہوتا ہے، اس کا نفاذ بہت ضروری ہے۔ ۔ ۔ جن کے لیے یہ قوانین بنتے ہیں انھیں بااختیار بنانا چاہیے تاکہ وہ اپنے مانگ سکیں۔‘‘
اس ریلی میں ملتان سے آئی ہوئی ایک خاتون نسیم جہاں کا کہنا تھا کہ قانون سازی اور حقوق کے تحفظ کی باتیں کرنے والے عورت کو انسان تو سمجھیں۔
’’پسماندہ علاقوں میں تو خواتین کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا، حقوق دینے کی بات تو بعد کی ہے۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
حکومت کا کہنا ہے کہ معاشرے کے تمام فریقوں کو خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق کوششوں میں سرکار کی معاونت میں اپنا فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔
صدر ممنون حسین نے اپنے ایک بیان میں کہ اکہ اس دن سے ہمیں خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنے اور انھیں ہر ممکنہ انداز میں سہولت دینے سے متعلق اپنے پختہ عزم کی تجدید کا موقع ملتا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے عالمی یوم خواتین پر اپنے پیغام میں کہا کہ حکومت خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے پرعزم ہے کیونکہ پائیدار ترقی کے لیے زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی شمولیت ضرورت ہے۔
وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے اس موقع پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہ اکہ خواتین کے حقوق کے حصول کے ضمن میں تہذیبی اور سماجی رویوں کو بدلنے کے لیے لوگوں کو کوششیں کرنا ہوں گی۔
’’پارلیمنٹ کے قوانین ان کو طاقتور نہیں بنا سکتے۔ پارلیمنٹ کے قوانین تحفظ دے سکتے ہیں معاشرے میں ایک فضا پیدا کرسکتے ہیں کچھ رجحانات جو غلط ہیں ان کو روک سکتے ہیں، لیکن ہمیں اپنے سماجی رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی، اپنے تہذیبی رویوں میں بھی تبدیلی لانا ہوگی۔‘‘
انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ خواتین کو سماج میں مساوی مقام دیے بغیر معاشرتی ترقی اور حصول ممکن نہیں اور اس کے لیے ہر سطح پر خواتین کو آواز بلند کرنا ہوگی۔