عالمی ادارہ برائے محنت ’آئی ایل او‘ کا کہنا ہے کہ ملک میں تقریباً 40 لاکھ بچے مختلف شعبوں میں محنت و مزدوری کرتے ہیں، جبکہ دیہی علاقوں میں مزدور بچوں کی شرح شہروں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے بچوں کی فلاح و بہبود اور انھیں ترقی کے مواقع فراہم کرنے کےعزم کا اظہار کرتے ہوئے 2013ء کو پاکستان میں بطور بچوں کا سال منانے کا اعلان کیا ہے۔
بچوں کے عالمی دن کے حوالے سے منگل کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک غیر جانبدار کمیشن بنانے کی ہدایت بھی کردی گئی ہے۔
’’ہمارے بچے ہماری ترجیح، امید اور حوصلہ ہیں۔ آئیے ہاتھ ملا کر ان کے مستقبل کے تحفظ کا عزم کریں۔‘‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 18 کروڑ آبادی میں 15 سال سے کم عمر بچوں کی تعداد 30 فیصد سے زائد ہے جن میں سے بیشتر تعلیم، صحت اور بہتر خوراک جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
عالمی ادارہ برائے محنت ’آئی ایل او‘ کا کہنا ہے کہ ملک میں تقریباً 40 لاکھ بچے مختلف شعبوں میں محنت و مزدوری کرتے ہیں، جبکہ دیہی علاقوں میں مزدور بچوں کی شرح شہروں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔
پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے حال ہی میں 16 سال سے کم عمر بچوں کی تعلیم لازم و مفت کرنے کے لیے پارلیمان سے ایک قانون کی منظوری حاصل کی ہے، جس کے تحت ایسے آجروں کو جو بچوں کو تعلیم سے محروم رکھنے میں کردار ادا کررہے ہیں، تین سال قید اور پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا بھی دی جاسکے گی۔
تاہم منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں بچوں کے حقوق پر اظہار خیال کرتے ہوئے حکومت کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کی رکن اسمبلی بشریٰ گوہر نےسرکاری پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے لڑائی سے متاثرہ قبائلی علاقوں کے بچوں کی بہبود و ترقی کے لیے آئینی تقاضے پورے کرنے پرزور دیا۔
’’حکومت مصنوعی طریقے سے (بچوں کا) دن منارہی ہے۔ تقریبات صرف خود نمائی کے لیے ہیں۔ مزدور بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ان کے ساتھ زیادتیاں ہورہی ہیں ان پر توجہ دینا چاہیے۔‘‘
بچوں کے حقوق کا دفاع کرنے والی ساحل نامی غیر سرکاری تنظیم کی پروگرام مینیجر رضوانہ اختر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات اب زیادہ ذرائع ابلاغ میں آرہے ہیں لیکن بچوں کے تحفظ سے متعلق حکومتی سطح پر اقدامات ناکافی ہیں۔
’’جب ان کے اسکول نہیں تو وہ سارا سارا دن گلیوں میں پھرتے رہتے ہیں جہاں وہ غیر محفوظ ہیں۔ بچوں کے تحفظ کی تو کوئی بات ہی نہیں ہوتی۔‘‘
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ پارلیمان کی طرف سے بچوں کی فلاح و بہبود، حفاظت اور ترقی کے لیے حالیہ قانون سازی خوش آئند ہے مگر موثر نفاذ کے بغیر نتائج کا حصول ممکن نہیں۔
بچوں کے عالمی دن کے حوالے سے منگل کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک غیر جانبدار کمیشن بنانے کی ہدایت بھی کردی گئی ہے۔
’’ہمارے بچے ہماری ترجیح، امید اور حوصلہ ہیں۔ آئیے ہاتھ ملا کر ان کے مستقبل کے تحفظ کا عزم کریں۔‘‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 18 کروڑ آبادی میں 15 سال سے کم عمر بچوں کی تعداد 30 فیصد سے زائد ہے جن میں سے بیشتر تعلیم، صحت اور بہتر خوراک جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
عالمی ادارہ برائے محنت ’آئی ایل او‘ کا کہنا ہے کہ ملک میں تقریباً 40 لاکھ بچے مختلف شعبوں میں محنت و مزدوری کرتے ہیں، جبکہ دیہی علاقوں میں مزدور بچوں کی شرح شہروں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔
پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے حال ہی میں 16 سال سے کم عمر بچوں کی تعلیم لازم و مفت کرنے کے لیے پارلیمان سے ایک قانون کی منظوری حاصل کی ہے، جس کے تحت ایسے آجروں کو جو بچوں کو تعلیم سے محروم رکھنے میں کردار ادا کررہے ہیں، تین سال قید اور پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا بھی دی جاسکے گی۔
تاہم منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں بچوں کے حقوق پر اظہار خیال کرتے ہوئے حکومت کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کی رکن اسمبلی بشریٰ گوہر نےسرکاری پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے لڑائی سے متاثرہ قبائلی علاقوں کے بچوں کی بہبود و ترقی کے لیے آئینی تقاضے پورے کرنے پرزور دیا۔
’’حکومت مصنوعی طریقے سے (بچوں کا) دن منارہی ہے۔ تقریبات صرف خود نمائی کے لیے ہیں۔ مزدور بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ان کے ساتھ زیادتیاں ہورہی ہیں ان پر توجہ دینا چاہیے۔‘‘
بچوں کے حقوق کا دفاع کرنے والی ساحل نامی غیر سرکاری تنظیم کی پروگرام مینیجر رضوانہ اختر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات اب زیادہ ذرائع ابلاغ میں آرہے ہیں لیکن بچوں کے تحفظ سے متعلق حکومتی سطح پر اقدامات ناکافی ہیں۔
’’جب ان کے اسکول نہیں تو وہ سارا سارا دن گلیوں میں پھرتے رہتے ہیں جہاں وہ غیر محفوظ ہیں۔ بچوں کے تحفظ کی تو کوئی بات ہی نہیں ہوتی۔‘‘
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ پارلیمان کی طرف سے بچوں کی فلاح و بہبود، حفاظت اور ترقی کے لیے حالیہ قانون سازی خوش آئند ہے مگر موثر نفاذ کے بغیر نتائج کا حصول ممکن نہیں۔