ایک کروڑ سے زائد خواتین حق رائے دہی سے محروم

الیکشن کمیشن کی جاری کردہ فہرستوں کے مطابق کئی علاقوں میں مرد ووٹروں کی تعداد لاکھوں میں ہے جبکہ انہی علاقوں میں خواتین ووٹروں کی تعداد محض ہزاروں میں ہے۔
پاکستان میں اس وقت خواتین کی آبادی 49 فیصد کے لگ بھگ ہے مگر رواں سال 11 مئی کو ہونے والے انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن کی طرف سے جو انتخابی فہرستیں جاری کی گئی ہیں ان میں مرد وں کے مقابلے میں خواتین ووٹروں کی تعداد تقریباً ایک کروڑ د س لاکھ کم ہے اور یہ فرق صوبہ بلوچستان کے کل ووٹروں سے تین گنا زائد ہے جہاں کل ووٹروں کے تعداد محض 33 لاکھ 36 ہزار 659 ہے۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری حتمی انتخابی فہرستوں کے مطابق ملک میں آٹھ کروڑ 61 لاکھ 89 ہزار 802 ووٹر ہیں جن میں سے چار کروڑ 85 لاکھ 92 ہزار 387 مرد اور تین کروڑ 75 لاکھ 97 ہزار 415 خواتین ہیں۔

انتخابات کے عمل کی نگرانی کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک یا ’فافین‘ کے چیف ایگزیکٹو مدثر رضوی نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے آبادی کے تناسب سے خواتین ووٹروں کی تعداد کم ہونے کو سنگین معاملہ قرار دیا۔

’’ہم خواتین ووٹروں کی کمی کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو آگاہ کرتے رہے ہیں مگر اس طرف توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے 11 مئی کو ہونے والے انتخابات میں تقریباً ایک کروڑ سے زائد خواتین اپنےحق رائے دہی سے محروم رہیں گی‘‘۔

خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 1998 ء کی مردم شماری کے مطابق خواتین ملکی آبادی کا 48 فیصد تھیں مگر اس وقت خواتین ملکی آبادی کا 49 فیصد ہیں۔

’’ خواتین ووٹروں کی کمی کی بڑی وجہ رجسٹریشن نہ ہونا ہے اس حوالے سے الیکشن کمیشن اور حکومت کی طرف سے عملی اقدامات کی ضرورت تھی جو نہیں کئے گئے تقریبا 11 ملین خواتین کے انتخابی عمل سے باہر رہنے سے انتخابات کی کیا ساکھ ہو گی‘‘۔

الیکشن کمیشن کی جاری کردہ فہرستوں کے مطابق کئی علاقوں میں مرد ووٹروں کی تعداد لاکھوں میں ہے جبکہ انہی علاقوں میں خواتین ووٹروں کی تعداد محض ہزاروں میں ہے۔
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیر ستان میں کل ووٹروں کی تعداد ایک لاکھ 60 ہزار 666 ہے جن میں مرد ووٹر ایک لاکھ 48 ہزار 962 ہیں جبکہ خواتین ووٹروں کی تعداد صرف 11 ہزار 704 ہے۔

الیکشن کیمشن کے ایک ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بلوچستان، خیبرپختون خوا اور قبائلی علاقوں میں خواتین قومی شناختی کارڈ ہی نہیں بنواتیں جس کی وجہ سے ان کے ووٹ بھی نہیں بن پاتے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ سابق حکومت کی طرف سے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے خاندانوں کے لئے ایک ہزار روپے ماہانہ امداد دینے کے بے نظیر انکم سپورٹ پرگرام کے آغاز پر پسماندہ علاقوں میں رہنے والی خواتین کی بڑی تعداد نے قومی شناختی کارڈ بنوائے اور وہ نادرا کے نئے نظام کے تحت خودکار طریقے سے انتخابی فہرستوں میں شامل ہو گئیں لیکن اس کے باوجود مردوں کے مقابلے میں ابھی تک خواتین ووٹروں کی تعداد قابل ذکر حد تک کم ہے۔