پاکستان میں نشے کے عادی افراد خصوصاً خواتین کی تعداد میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
انسداد منشیات کی وزارت کے مطابق ملک میں نشے کے عادی افراد کی تعداد تقریباً 50 لاکھ ہے تاہم منشیات کے استعمال کی حوصلہ شکنی سے متعلق بعض غیر سرکاری تنظیمیں ان سرکاری اعدادوشمار سے متفق نہیں ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ سالوں کے دوران نشے کی عادی افراد کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ان میں خواتین بھی شامل ہیں جو تفریح کی غرض سے یا پھر ذہنی الجھنوں سے وقتی طور پر نجات حاصل کرنے کے لیے منشیات کا استعمال شروع کرتی ہیں۔
نشے کے عادی افراد کے علاج کے سلسلے میں سرگرم ایک غیر سرکاری ادارے کے سربراہ ڈاکٹر طلعت عابد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا ہے کہ خواتین میں منشیات کے استعمال میں اضافے کی ایک وجہ ان کا با آسانی دستیاب ہونا ہے۔
’’چرس کا استعمال خواتین میں نسبتاً زیادہ ہے اس وجہ سے وہ نشے کی عادی ہوتی ہیں۔ علاج کے سینٹر سے رابطہ تو کرتی ہیں لیکن 98 فیصد نشے کی عادی خواتین علاج کے لیے سینٹرز پر نہیں آتی ہیں۔‘‘
اُنھوں نے بتایا کہ خواتین کے علاج سے دور رہنے کی بڑی وجہ اُن کے لیے ناکافی سہولتیں اور علیحدہ مراکز کا نا ہونا ہے۔
وزارت منشیات کے ایک اعلیٰ عہدیدار محمد شاہد نے حال ہی میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں نشے کی عادی خواتین کی اکثریت کا تعلق تعلیم یافتہ طبقے سے ہے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں منشیات کے استمعال کا رجحان بڑھنے سے ذہنی امراض کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر رضوان تاج نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ منشیات کے ساتھ ساتھ نشہ آور ادویات کا لمبے عرصے تک استعمال بھی ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے۔
‘‘اس سے مختلف طرح کی بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں جیسے شک کی بیماری، ڈپرشن، دماغ کو نقصان پہنچ سکتا ہے، زندگی گزارنے کا طریقہ اور کام کرنے کی صلاحیت مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔’’
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات نے اپنی حالیہ رپورٹ میں متنبہ کیا تھا کہ پاکستان سے ملحقہ افغان صوبوں میں افیون کی کاشت میں اضافے کے باعث پاکستان میں منشیات کے استعمال کی شرح میں بھی اضافے کا امکان ہے۔
باور کیا جاتا ہے کہ افغانستان میں کاشت کی جانے والی 40 فیصد افیون اور ہیروئن پاکستان کے راستے دنیا بھر میں اسمگل ہو رہی ہے اور اس کا کچہ حصہ پاکستان میں بھی فروخت ہوتا ہے، جس سے پاکستان کے سماجی شعبے صحت اور اقتصادیات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
حکومت نے ملک میں نشہ آور ادویات کے خاتمے کے لیے چار سالہ جامع منصوبہ بھی ترتیب دے رکھا ہے جس کا مقصد 2014ء تک ملک میں منشیات اور غیر قانونی ادویات کی روک تھام کو یقینی بنانا ہے۔ اس منصوبے کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تعاون سے ملک میں منشیات کی آسان دستیابی کو ختم کیا جائے گا۔