'جو ٹیم باہر ہو رہی تھی وہی سب سے پہلے فائنل میں پہنچ گئی'

پاکستان نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو شکست دے کر فائنل میں جگہ بنا لی ہے۔

نیوزی لینڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 152 رنز بنائے تھے جب کہ پاکستان نے کامیابی کے لیے ملنے والے 153 رنز کا ہدف آخری اوور میں حاصل کر لیا۔ پاکستان کی جانب سے کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان نے نصف سینچریاں اسکور کیں۔

پاکستان کی کامیابی پر سوشل میڈیا پر تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ کوئی اس کامیابی کو ٹیم کے اس ورلڈ کپ میں برے آغاز سے اچھے اختتام سے تعبیر کر رہا ہے جب کہ کوئی اسے 1992 کے ون ڈے ورلڈ کپ سے مشابہت دی جا رہی ہے۔

بھارت کی کرکٹ ٹیم کے سابق کھلاڑی عرفان پٹھان کا کہنا تھا کہ ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی متاثر کن ہے۔




بھارتی ٹیم کے سابق کھلاڑی اور کرکٹ کمنٹیٹر سنجے منجریکر نے پاکستان ٹیم کی کارکردگی کو ’پرفیکٹ گیم آف کرکٹ‘ کے قریب قرار دیا۔

فاسٹ بالر وہاب ریاض نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہماری ٹیم یقینی طور پر جانتی ہے کہ کیسے گیم اور دل جیتنے ہیں۔

بھارت کے مشہور کرکٹ پریزنٹر وکرانت گپتا نے پاکستان میں تنقید کا نشانہ بننے والے کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان کی تعریف کی۔

وکرانت گپتا کا کہنا تھا کہ بابر اور رضوان نے اس دن کارکردگی دکھائی جو اہمیت کے حامل تھا۔

بھارتی صحافی گورو پنڈت نے زمبابوے کے خلاف میچ میں شکست کے بعد دیا گیا بیان شیئر کیا جس میں پاکستان کپتان نے کہا تھا کہ اب اُن کی ٹیم کے لیے سیمی فائنل تک رسائی مشکل ہے۔

مشہور گلوکار عاصم اظہر نے پاکستان کے ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچنے پر تبصرہ کیا کہ پاکستان کی ٹیم بس باہر ہونے والی تھی جب کہ اب پہلی ٹیم ہے جو فائنل میں پہنچ چکی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ کا کہنا تھا کہ لڑکوں کی کارکردگی بہت شاندار رہی۔

کرکٹ پر تبصروں کے لیے مشہور ڈینس فریڈمین کا کہنا تھا کہ لوگ اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں کیوں پاکستان کرکٹ ٹیم سے پیار کرتا ہوں۔ اب آج شب کے بعد کیا واقعی مجھے کسی تشریح کی ضرورت ہے؟

آسٹریلیا کے خبر رساں ادارے سے وابستہ صحافی نک سویج نے ایک تصویر شیئر کی جس میں کرکٹ گراؤنڈ میں بعض پاکستانی شائقین نظر آ رہے ہیں جن کی شرٹ پر 152 لکھا ہوا ہے۔


پاکستان کی ویمن کرکٹ ٹیم کی سابق کپتان عروج ممتاز خان کاکپتان بابر اعظم کی اس ورلڈ کپ میں پہلی بار اچھی کارکردگی کے بارے میں کہنا تھا کہ کنگ واپس آ گیا ہے۔

ایک صارف علی احمد اعوان نے سوال اٹھایا کہ کیا سین ہونے جا رہا ہے؟


تحریکِ انصاف کے رہنما عثمان ڈار نے عمران خان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یاد دلایا کہ وہ تین دہائیوں قبل آسٹریلیا س میں پاکستان کا پرچم بلند کر چکے ہیں۔

یاد رہے کہ عمران خان کی قیادت میں پاکستان کی ٹیم نے اپنا واحد ون ڈے ورلڈ کپ جیتا تھا۔

پی ٹی آئی رہنما اسد عمر کے خیال میں بھی 1992 کی یاد تازہ ہوئی ہے۔

بھارتی صحافی سارنگ کا کہنا تھا کہ 1992 کے ورلڈ کپ اور موجودہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں مشابہت ہے۔

ان کے بقول 1992 میں بھی آسٹریلیا دفاعی چیمپئن تھا جب کہ موجودہ ورلڈ کپ میں بھی وہی دفاعی چیمپئن ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ دونوں بار عالمی مقابلے کا میزبان آسٹریلیا ہی تھا۔

انہوں نے یاد دلایا کہ گروپ اسٹیج میں پاکستان کو 1992 میں بھی بھارت سے شکست ہوئی تھی اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے جب کہ میزبان آسٹریلیا گروپ اسٹیج میں ہی ٹورنامنٹ سے باہر ہو گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 1992 کی طرح اس بار بھی سیمی فائنل میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو شکست دی تھی۔

پاکستانی صحافی کامران خان کی بھی کچھ ایسی ہی رائے تھی۔