این ڈی ایم اے کے سربراہ نے بتایا کہ پاکستان میں موسم میں تبدیلیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مئی میں جس طرح کی بارشیں اور ٹھنڈ ہے، ماضی میں اس طرح نہیں ہوتا تھا۔
اسلام آباد —
پاکستان میں آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) کے سربراہ محمد سعید علیم کا کہنا ہے کہ عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان میں شدید بارشوں اور دریاؤں میں طغیانی کے باعث سیلابوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
این ڈی ایم اے کے چیئرمین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پاکستان کو درپیش خطرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہاں قدرتی آفات کے خطرات بہت بڑھ گئے ہیں۔
’’یہاں سیلاب کی خطرات بڑھ گئے ہیں بارشوں کی وجہ سے مٹی کے تودے گرنے کے خطرات بھی بڑھ گئے ہیں۔۔۔۔ ہم ابھی تھر میں ایک خشک سالی کی صورت حال سے گزر ہیں۔ آگے بھی مون سون (بارشوں) کی جو پیش گوئی کی جا رہی ہیں وہ کوئی زیادہ اطمینان بخش نہیں ہیں۔‘‘
سعید علیم نے بتایا کہ پاکستان میں موسم میں تبدیلیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مئی میں جس طرح کی بارشیں اور ٹھنڈ ہے، ماضی میں اس طرح نہیں ہوتا تھا۔
پاکستان اور خطے کے ممالک کے درمیان قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کر نے کے لیے رواں ہفتے اسلام آباد میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
اس کانفرنس میں پاکستان، بھارت، افغانستان، چین اور قزاقستان کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔
سعید علیم نے بتایا کہ اس کانفرنس کا مقصد کسی بھی طرح کی قدرتی آفت کی صورت میں علاقائی ممالک کے درمیان تعاون کو بڑھانا ہے۔
’’جو ہم نے حل تلاش کیا ہوا ہے وہ کسی اور کے فائدے میں آ جائے گا، جو کسی چیز کا سوچا ہوا ہے اُس سے ہم فائدہ اٹھا لیں گے۔ خاص طور پر ہماری کوشش ہے کہ افغانستان کی مدد کی جائے جو ایک (ٹرازیشن) کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔‘‘
سعید علیم کا کہنا تھا کہ موسمیاتی پیشگوئی اور دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کے بارے میں ایک دوسرے کو معلومات فراہم کر کے علاقائی ممالک قدرتی آفات سے بہتر انداز میں نمٹنے میں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔
پاکستان کو 2010 اور 2011 میں مون سون بارشوں کے باعث شدید سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا جس سے بنیادی انتظامی ڈھانچے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچنے کے علاوہ وسیع رقبے پر کھڑی فصلیں بھی تباہ ہو گئیں جس سے لاکھوں افراد بلواسطہ یا بلاوسطہ متاثر ہوئے۔
ان سیلابوں سے بڑی تعداد میں خواتین اور بچے متاثر ہوئے اور اب بھی اس کے اثرات بہت سے علاقوں میں بچوں پر دیکھے جا سکتے ہیں جو آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی کئی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
این ڈی ایم اے کے چیئرمین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پاکستان کو درپیش خطرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہاں قدرتی آفات کے خطرات بہت بڑھ گئے ہیں۔
’’یہاں سیلاب کی خطرات بڑھ گئے ہیں بارشوں کی وجہ سے مٹی کے تودے گرنے کے خطرات بھی بڑھ گئے ہیں۔۔۔۔ ہم ابھی تھر میں ایک خشک سالی کی صورت حال سے گزر ہیں۔ آگے بھی مون سون (بارشوں) کی جو پیش گوئی کی جا رہی ہیں وہ کوئی زیادہ اطمینان بخش نہیں ہیں۔‘‘
سعید علیم نے بتایا کہ پاکستان میں موسم میں تبدیلیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مئی میں جس طرح کی بارشیں اور ٹھنڈ ہے، ماضی میں اس طرح نہیں ہوتا تھا۔
پاکستان اور خطے کے ممالک کے درمیان قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کر نے کے لیے رواں ہفتے اسلام آباد میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
اس کانفرنس میں پاکستان، بھارت، افغانستان، چین اور قزاقستان کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔
سعید علیم نے بتایا کہ اس کانفرنس کا مقصد کسی بھی طرح کی قدرتی آفت کی صورت میں علاقائی ممالک کے درمیان تعاون کو بڑھانا ہے۔
’’جو ہم نے حل تلاش کیا ہوا ہے وہ کسی اور کے فائدے میں آ جائے گا، جو کسی چیز کا سوچا ہوا ہے اُس سے ہم فائدہ اٹھا لیں گے۔ خاص طور پر ہماری کوشش ہے کہ افغانستان کی مدد کی جائے جو ایک (ٹرازیشن) کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔‘‘
سعید علیم کا کہنا تھا کہ موسمیاتی پیشگوئی اور دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کے بارے میں ایک دوسرے کو معلومات فراہم کر کے علاقائی ممالک قدرتی آفات سے بہتر انداز میں نمٹنے میں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔
پاکستان کو 2010 اور 2011 میں مون سون بارشوں کے باعث شدید سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا جس سے بنیادی انتظامی ڈھانچے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچنے کے علاوہ وسیع رقبے پر کھڑی فصلیں بھی تباہ ہو گئیں جس سے لاکھوں افراد بلواسطہ یا بلاوسطہ متاثر ہوئے۔
ان سیلابوں سے بڑی تعداد میں خواتین اور بچے متاثر ہوئے اور اب بھی اس کے اثرات بہت سے علاقوں میں بچوں پر دیکھے جا سکتے ہیں جو آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی کئی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔