عالمی ادارہ خوراک کا کہناہے کہ رواں سال کے آخر تک خوراک کی فراہمی کے لیے سات کروڑ ڈالر کی رقم درکار ہے۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے پاکستان میں بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد کو فراہم کی جانے والی خوراک میں ناکافی مالی وسائل کے سبب مجبوراً کٹوتی کر دی گئی ہے جس سے بچے اور خواتین سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
عالمی ادارہ خوراک ’ڈبیلو ایف پی‘ کے ترجمان امجد جمال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ صوبہ خیبر پختون خواہ کے شورش زدہ اضلاع اور قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کو رواں سال کے آخر تک خوراک کی فراہمی کے لیے سات کروڑ ڈالر کی رقم درکار ہے لیکن ضروری مالی وسائل کی عدم دستیابی کے سبب بے گھر افراد کو مہیا کی جانے والی خوراک میں کمی کر دی گئی ہے۔
’’اس وقت ہم (بے دخل) ہونے والے11 لاکھ افراد کو خوراک دے رہے ہیں۔ جن میں سے تین بنیادی اشیاء ہائی انرجی بسکٹ کی تعداد کو آدھا کر دیا گیا ہے، آٹھ کلو گرام دال کو چار کلو گرام کر دیا ہے اور اس کے ساتھ بچوں کو غذائی قلت سے بچانے کے لیے (مخصوص) خوراک کی مقدار میں بھی ہمیں کمی کرنی پڑی ہے۔‘‘
امجد جمال نے کہا کہ تعلیم کے فروغ کے لیے عالمی ادارہ خوراک ملک بھر کے دیہی علاقوں میں اسکولوں میں آنے والے بچوں کو بسکٹ اور ہر دو ماہ بعد ان کے گھرانوں کو خوردنی تیل فراہم کر رہا تھا لیکن موسم گرم کی چھٹیوں کے بعد اس منصوبے کو بھی روک دیا جائے گا۔
’’اس میں تقریباً 13 لاکھ بچے ہیں، اور ہمارا خدشہ ہے کہ وہ بچے بھی جو دیہاتی علاقوں سے اس خوراک کے حصول کی وجہ سے (اسکول) آتے ہیں ان کے لیے تعلیم کا پروگرام بھی متاثر ہو رہا ہے۔‘‘
عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے اس مشکل صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے گندم کی فراہمی کا اعلان کر رکھا ہے۔
’’حکومت پاکستان نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ ہمیں گندم بطور امداد دیں گے اگر ہمیں پانچ لاکھ ٹن گندم مل جاتی ہے فوری طور پر تو ہم اس کے بدلے دیگر امداد دینے والوں (ڈونرز) سے رقم لے کر اس فوڈ باسکٹ کو بحال بھی کر سکتے ہیں۔‘‘
پاکستان میں حالیہ برسوں میں خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے باعث عالمی ادارہ خوراک کے عہدیدار کہتے ہیں کہ ملک کی نصف سے زائد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔ اس تناظر میں ڈبلیو ایف پی کی طرف سے خوراک کی مد میں فراہم کی جانے والی کھانے پینے کی اشیاء کو انتہائی اہمیت حاصل ہے لیکن امجد جمال نے متنبہ کیا ہے کہ اگر مالی وسائل دستیاب نا ہوئے تو بے گھر خاندانوں کو دی جانے والی خوراک میں مجبوراً مزید کمی کرنا پڑے گی۔
عالمی ادارہ خوراک ’ڈبیلو ایف پی‘ کے ترجمان امجد جمال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ صوبہ خیبر پختون خواہ کے شورش زدہ اضلاع اور قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کو رواں سال کے آخر تک خوراک کی فراہمی کے لیے سات کروڑ ڈالر کی رقم درکار ہے لیکن ضروری مالی وسائل کی عدم دستیابی کے سبب بے گھر افراد کو مہیا کی جانے والی خوراک میں کمی کر دی گئی ہے۔
’’اس وقت ہم (بے دخل) ہونے والے11 لاکھ افراد کو خوراک دے رہے ہیں۔ جن میں سے تین بنیادی اشیاء ہائی انرجی بسکٹ کی تعداد کو آدھا کر دیا گیا ہے، آٹھ کلو گرام دال کو چار کلو گرام کر دیا ہے اور اس کے ساتھ بچوں کو غذائی قلت سے بچانے کے لیے (مخصوص) خوراک کی مقدار میں بھی ہمیں کمی کرنی پڑی ہے۔‘‘
امجد جمال نے کہا کہ تعلیم کے فروغ کے لیے عالمی ادارہ خوراک ملک بھر کے دیہی علاقوں میں اسکولوں میں آنے والے بچوں کو بسکٹ اور ہر دو ماہ بعد ان کے گھرانوں کو خوردنی تیل فراہم کر رہا تھا لیکن موسم گرم کی چھٹیوں کے بعد اس منصوبے کو بھی روک دیا جائے گا۔
’’اس میں تقریباً 13 لاکھ بچے ہیں، اور ہمارا خدشہ ہے کہ وہ بچے بھی جو دیہاتی علاقوں سے اس خوراک کے حصول کی وجہ سے (اسکول) آتے ہیں ان کے لیے تعلیم کا پروگرام بھی متاثر ہو رہا ہے۔‘‘
عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے اس مشکل صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے گندم کی فراہمی کا اعلان کر رکھا ہے۔
’’حکومت پاکستان نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ ہمیں گندم بطور امداد دیں گے اگر ہمیں پانچ لاکھ ٹن گندم مل جاتی ہے فوری طور پر تو ہم اس کے بدلے دیگر امداد دینے والوں (ڈونرز) سے رقم لے کر اس فوڈ باسکٹ کو بحال بھی کر سکتے ہیں۔‘‘
پاکستان میں حالیہ برسوں میں خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے باعث عالمی ادارہ خوراک کے عہدیدار کہتے ہیں کہ ملک کی نصف سے زائد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔ اس تناظر میں ڈبلیو ایف پی کی طرف سے خوراک کی مد میں فراہم کی جانے والی کھانے پینے کی اشیاء کو انتہائی اہمیت حاصل ہے لیکن امجد جمال نے متنبہ کیا ہے کہ اگر مالی وسائل دستیاب نا ہوئے تو بے گھر خاندانوں کو دی جانے والی خوراک میں مجبوراً مزید کمی کرنا پڑے گی۔