حکومت پاکستان نے انٹرنیٹ سرگرمیوں اور سوشل میڈیا کی نگرانی سخت کرنے کے لیے کینیڈا کی ایک متنازعہ کمپنی کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔ خیال ہے کہ سینڈوائن پاکستان کے تمام ویب ٹریفک کی نگرانی اور جانچ پڑتال کے لیے جدید آلات بھی فراہم کرے گی۔
مارچ 2018 میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے جاری کردہ ایک ٹینڈر میں ملک میں ویب ٹریفک کی نگرانی کا نظام فراہم کرنے والی کمپنیوں سے پیشکشیں طلب کی گئی تھیں۔
آن لائن میگزین کوڈا اسٹوری کی رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں معاہدہ دسمبر 2018 میں کیا گیا اور اس کی مالیت ایک کروڑ 85 لاکھ ڈالر ہے۔ اس معاہدے پر کئی فریقوں نے دستخط کیے ہیں جن میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی اور ان بکس بزنس ٹیکنالوجیز شامل ہیں جو پاکستان میں سینڈوائن کی نمائندہ کے طور پر کام کررہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق نگرانی کے اس نظام کے لیے ڈی پی آئی یعنی ڈیپ پیکٹ انسپیکشن کا نظام استعمال کیا جائے گا جس سے نہ صرف انٹرنیٹ سرگرمیوں کی نگرانی کی جاسکے گی بلکہ انھیں ریکارڈ بھی کیا جاسکے گا۔
پاکستان میں 2010 میں بنائے گئے ایک قانون کے تحت حکومت کو ویب ٹریفک کی نگرانی اور بندش کا اختیار حاصل ہے۔ پاکستان میں ستمبر 2012 میں یوٹیوب پر پابندی لگائی گئی تھی جو تین سال بعد جنوری 2016 اٹھائی گئی۔ اس وقت بھی پاکستان میں ہزاروں ویب سائٹس بند ہیں جن میں وائس آف امریکہ اردو کی ویب سائٹ بھی شامل ہے۔
وفاقی وزیر اعظم سواتی سینیٹ کو بتاچکے ہیں کہ پی ٹی اے نے سینڈوائن اور ان بکس ٹیکنالوجیز سے نامناسب مواد کی نگرانی کے لیے آلات فراہم کرنے کے لیے کہا ہے۔ لیکن انھوں نے واضح کیا تھا کہ اس کام کے لیے قومی خزانے سے کوئی پیسہ ادا نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس فروری 2016 میں پی ٹی اے کے جاری کردہ ایک ٹینڈر سے پتا چلتا ہے کہ سینڈوائن کئی سال پہلے بھی پاکستان کو خدمات فراہم کررہی تھی۔
پی ٹی اے کے مطابق 9 لاکھ 25 ہزار ویب سائٹس پاکستان میں بند کی جاچکی ہیں۔ ان پر غیر اخلاقی، ملک دشمن، فرقہ واریت پر مبنی یا نفرت انگیز مواد ہونے کا الزام تھا۔ ان کے علاوہ 10 ہزار پروکسی ویب سائٹس کو بھی بلاک کیا جاچکا ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے غیر اخلاقی اور نفرت انگیز مواد والی ویب سائٹس کے ساتھ ساتھ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مخالف آوازوں کو خاموش کروانا اور بھی آسان ہو جائے گا۔ گزشتہ سال بائیں بازو کی عوامی ورکرز پارٹی کی ویب سائٹ اس کا نشانہ بن چکی ہے۔
صحافتی آزادیوں پر نظر رکھنے والی تنظیم فریڈم ہاؤس نے اس سال جاری کی گئی رپورٹ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی یا پی ٹی اے کے پاس انٹرنیٹ مواد کی روک ٹوک کے لیے حد سے زیادہ اختیارات ہیں۔ فریڈم ہاؤس کے مطابق اس کے پاس شواہد ہیں کہ پاکستان میں سرکاری طور پر سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی بڑے پیمانے پر نگرانی کی جاتی ہے۔